سانحہ ساہیوال اور خوف کی فضا ۔۔۔
شہریت اور شہری کیلئے مفکرین اور علماء نے تفصیل سے وہ اصول متعین کئے ہیں جو شہری کو سکون‘ تحفظ اور پرامن زندگی گزارنے کا درس دیتے ہیں۔ اسلام نے جان و مال اور عزت کے تحفظ کیلئے وہ اصول وضع کئے کہ جو کہ کسی بھی قانون کا لازمی حصہ قرار پائے۔ کسی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے حق کے بغیر قتل نہ کرو۔ جب ہم فتح مکہ اور دیگر غزوات کا مطالعہ کرتے ہیں تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپﷺ نے فوجوں کو ہمیشہ یہ درس دیا کہ جو تلوار پھینک دے اسے امان حاصل ہے۔ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔ ہم کن اصولوں اور مذاہب کے پیروکار ہیں کہ سانحہ ساہیوال جیسے واقعات ہوتے ہیں اور ہم بیدردی سے بچوں خواتین اور ناحق مسلمانوں پر ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ اور بلاجواز انہیں جانوروں کی طرح قتل کر دیا جاتا ہے۔ اسلام تو جہاں جان و مال کا بھرپور تحفظ دیتا ہے۔ درحقیقت ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جتنے جعلی مقابلے ہوئے کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ انکوائری اور کارروائی محدود پیمانے تک رہی۔ لواحقین کے گھر جا کر ان کے سر پر دست شفقت رکھا کچھ مالی امداد کی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اس موقع پر جن پولیس ریفارمز کی ضرورت تھی ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ پورے پاکستان میں دس سال سے پولیس کے محکمے میں ہونیوالی زیادہ تر بھرتیاں سفارش پر ہوئیں جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ امن و امان اور عوام کو جانی تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری حکمران وقت پر آ جاتی ہے کہ وہ فوری طور پر اس قسم کے واقعات کا نوٹس لے کر قاتلین کو بروقت سزا دلوائے تاکہ جرائم کی تعداد میں کمی ہو سکے۔ حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی پیاسا مر جائے تو میں اس کا جوابدہ ہوں۔ ہمیں اس وقت جن عوامل پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے اس میں قانون کی مضبوطی ایمانداری کی بنیاد پر پولیس کے محکمے میں بھرتیاں اور ذہنی و فکری اصلاح جسکے تحت پر شہری کو یہ پتہ ہو کہ دوسرے شہری کی جان و مال اور عزت و آبرو اسی طرح قابل احترام ہے جتنی اس کی ہے۔ ان عوامل سے اس ’’پولیس گردی‘‘ کا ممکن ہے جو کہ عرصہ دراز سے ملک میں قائم ہے۔ جس کی وجہ سے نصیب اللہ محسود کیس اور سانحہ ماڈل ٹائون جیسے کیس ’’کھوہ کھاتے‘‘ میں چلے گئے۔ ان واقعات کے سختی سے سدباب اور عملدرآمد ہمیشہ حکمرانوں کی ذمہ داری رہی ہے۔ سانحہ ساہیوال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور موجودہ حکمرانوں پر ہی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس واقعہ کا نوٹس لیکر مجرموں کو کڑی سے کڑی اور قرار واقعی سزا دیں۔ احادیث کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا ملت اسلامیہ کے دائرے سے نکل جاتا ہے۔ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ ان واقعات کا بوکھلاہٹ اور تذبذب سے جواب دینے کی بجائے اور ایک کے بعد دوسرا بیان داغنے کی بجائے ان عناصر کا قلع قمع ضروری ہے جو بڑی آسانی سے معصوم اور نہتے لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔ ساہیوال سانحے میں سی ٹی ڈی نے درجنوں موقف تبدیل کئے۔ یہاں تک کہ لاء منسٹر نے بھی مقتول کی گاڑی سے اسلحہ تک نکال دیا۔ جبکہ دوسری طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی کوئی اسلحہ برآمد ہوا۔ بفرض محال اگر خلیل کا تعلق کسی دہشتگرد تنظیم سے بھی ہوتا جو کہ نہیں تھا تو کون سا قانون سر عام گولیاں چلانے اور قتل و غارت کی اجازت دیتا ہے۔ عمران خان کو اس واقعہ کا سختی سے نوٹس لیکر جلد از جلد انصاف فراہم کرنا ہوگا۔ انہوں نے پہلے دن ہی سے مدینہ جیسی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ مدینہ جیسی ریاست کا پہلا اصول ہی حضرت ابوبکر صدیق نے وضع کردیا تھا کہ تم میں سے کوئی کمزور میرے لئے طاقتور ہے یہاں تک کہ اس کا حق نہ دلوادوں اور تم میں سے طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے کہ میں اس سے غریب کا حق نہ لے لوں۔ زندگی عزت و آبرو یہ سب شخصی حقوق ہیں اور انکی ادائیگی کی ذمہ داری حکمران وقت پرہوتی ہے۔ اگر بر وقت انصاف مل جائے تو وہ حکومت مثالی بن جاتی ہے اور اگر انصاف میں تاخیر ہو جاتی ہے تو وہی واقعہ حکومت وقت کے ماتھے پر بدنما داغ بن جاتا ہے۔ ایک سیاسی رہنما کی جیپ کے نیچے بچہ آ گیا اسکے گھر والوں کو پیسے دیکر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ پھر اس قسم کے جتنے واقعات ہوئے لواحقین کو پیسے دے دلا کر معاملہ ختم کر دیا گیا۔سانحہ ساہیوال کے متاثرین کو بھی دو کروڑ روپے دینے کے عندیہ کا اظہار کیا گیا۔ زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے فوری انصاف کی ضرورت ہوتی ہے اور انصاف تو یہی ہوتا ہے کہ دوبارہ سے ایسے واقعات نہ ہوں۔ اس کیلئے مجرموں کا کیفرکردار کوپہنچنا ضروری ہے اور اس کیلئے قانون کا حرکت میں آنا از حد ضروری ہے تاکہ عوام میں خوف و ہراس کی فضا ختم ہو اور ان کو یقین ہو جائے کہ ان کو مکمل جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حاصل ہے۔