• news
  • image

ٹویٹ :صدارتی نظام ؟

وزیر اعظم کا ٹوئٹ بھی اچھا تھا لیکن وہ اسی نظام کا حصہ ہیں انھیں پارلیمنٹ میں جانا چاہیے ،اور اپوزیشن کی کرپشن کو بھی عوام کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے ۔
چند دنوں سے پاکستان میں صدارتی نظام کے بارے ’’چہ مگوئیاں‘‘ ہو رہی ہیں لیکن جب ہم نے جمہوری نظام کا جائزہ لیا تو اس نتیجے پہ پہنچے کہ اس نظا م نے بھی ہمیں بیرونی قرضوں اور بدحالی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔عوام ’’بدحال‘‘ ہو چکے ہیں ۔وہ این جی اوز کے سائے تلے اپنے ’’ پیٹ کی آگ‘‘ بجھانے کیلئے ’’لائینوں ‘‘میں کھڑے ہوتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ریاست کہاں چلی گئی ؟ کیا عوامی مسائل کا حل حکومت کی ذمہ داری نہیں۔35سال سے دو خاندان اس نظام کے ذریعے عوام پہ مسلط ہیں ۔جو خود تو امیر سے امیر تر ہو گئے ہیں لیکن عوام کا جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے اس لیے اس کا جائزہ لینا ضروری سمجھا ۔ صدارتی نظام پارلیمانی نظام کے’’ بر عکس‘‘ طاقتور طریقے سے ملکی نظام کو چلانے کے تقاضے کے مطابق منظر عام پر آنے والا ایک’’ طرز حکومت ‘‘ہے۔ اس ڈھانچے کو سخت طاقتوں کے درمیان’’ علیحدگی‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اسے پارلیمنٹ نہیں بلکہ عوام کی جانب سے تعین کیا جانا ہے۔ دوسرا سبب صدر اور انتظامیہ کے دیگر ارکان کا پارلیمانی امور میں’’ مؤثر طریقے ‘‘سے شراکت کرنے کے ممکن نہ ہونے پر’’ مبنی‘‘ ہے، جبکہ تیسری وجہ مقننہ و انتظامیہ طاقتوں کا اپنے ذرائع اور وجود کو برقراررکھنے کے اعتبار سے ایک دوسرے سے ’’ آزاد‘‘ ہونا ہے۔ اس بنا پر واحد عنوان کے حامل یعنی صدارتی نظام قوتوں کے درمیان علیحدگی کے نظریے کو بہترین طریقے سے’’ لاگو‘‘ کرنیوالا ایک سسٹم جانا جاتا ہے۔ صدارتی نظام کو چلانے کی طاقت کا ’’ دارومدار‘‘ عوام پر ہونے کی بنا پر استحکام کا قیام ، طاقتور ا نتظامیہ کی تشکیل اور جمہوری لحاظ سے اس کو دوسرے نظاموں پر فوقیت حاصل ہے۔ صدارتی نظام استحکام و عمل درآمد کے اعتبار سے بھی پارلیمانی نظام سے’’ بالا تر‘‘ ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ پارلیمانی نظام کا صدارتی نظام کے مقابلے میں ایک فائدہ اس کا ’’لچکدار‘‘ ہوناہے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھی چند روز قبل کہا کہ پاکستانیوں کو صدارتی نظام کی’’ خوبیوں‘‘ پر غور کرنا چاہئے۔ پاکستانیوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا پارلیمانی نظام کے مقابلے میں صدارتی نظام ان کیلئے زیادہ مفید ثابت نہیں ہوسکتا۔جب ان سے پوچھاگیا کہ آپ جب وزیر اعظم تھے تو آپ نے صدارتی نظام کے بارے میں بات کیوں نہیں کی تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے درجنوں ملکوں کے دورے کے دوران صدارتی نظام حکومت کا قریب سے ’’مشاہدہ‘‘ کیا۔ان دوروں کے دوران انھیں اس نظام کی ’’خوبیوں کااندازہ ‘‘ہوا،انھوں نے کہا کہ صدارتی نظام میں ایک منتخب پارلیمنٹ ہوتی ہے وزیر اعظم حکومت کاچیف آپریٹنگ افسر اور صدر چیف ایگزیکٹو افسر ہوتاہے اور تمام ادارے اسی کو’’ جوابدہ‘‘ ہوتے ہیں اس میں وزارتیں بھی ہوتی ہیں اور کمیٹیاں بھی اور ایک مضبوط ومستحکم نظام ہوتاہے جو س پورے سسٹم کی حفاظت کرتاہے۔ اسی بنا پر یہ سسٹم اچھی طرح کام کرتاہے۔ اس سے قبل رکن بلوچستان اسمبلی سردار یار محمد رند نے پارلیمانی نظام حکومت کو’’ ناکام‘‘ قرار دیتے ہوئے ملک کی بہتری کیلئے صدارتی نظام حکومت کی حمایت کی تھی۔جبکہ ہمارے کئی نامور دانشور بھی اس نظام کے ’’حامی ‘‘ہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پارلیمانی نظام حکومت کافائدہ چند سیاسی خاندانوں نے اٹھایا۔آج بھی ملک پر چند خاندانوں کی حکومت ہے ۔جس بنا پر اس پارلیمانی نظام کے فوائد عوام تک نہیں پہنچے۔ جبکہ صدارتی نظام حکومت میں امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے،کچھ احباب کہتے ہیں کہ ’’پارلیمانی نظام ہمیں’’ راس‘‘ نہیں، مارشل لا ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے، ہمیں انکے ادغام کی ضرورت ہے۔ ایک طاقت ور اور فعا ل صدر، جس کے پاس 58-2B کی طاقت موجود ہو اور اسے براہ راست ووٹنگ کے ذریعے منتخب کیا جائے‘‘۔جمہوریت صدارتی اور پارلیمانی نظام کے گرد گھومتی ہے۔ ہر ملک کے معروضی حالات ہوتے ہیں‘ انکے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے‘ امریکہ میں صدارتی نظام ہے۔ جارج واشنگٹن نے کافی’’ غوروخوض‘‘ کے بعد فیصلہ کیا کہ مختلف ریاستوں کو اکٹھا کرنے کیلئے صدارتی طرز حکومت بہتر رہے گا۔ صدر کو کافی اختیارات دینے کیلئے لیکن طاقت کے بے جا استعمال کو روکنے کیلئے کچھ رکاوٹیں بھی کھڑی کردیں۔ طاقت کے زعم میں امریکی صدر ’’شتر بے مہار‘‘ نہیں بن سکتا‘ مہار کانگرس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔جس کی حالیہ مثال آپکے سامنے ہے کہ ٹرمپ نے میسیکو کی سرحد پہ دیوار بنانے کے فنڈز کیلئے چوٹی کا زور لگا لیا لیکن وہ اس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا۔ برطانیہ نے پارلیمانی طرز حکومت اختیار کیا۔ روایات کو اس قدر مضبوط اور مربوط کیا کہ تحریری آئین کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ لوگوں کا سیاسی شعور ’’بتدریج پختگی ‘‘کی منازل طے کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ وہ حکومت کو سرِ مْو بھی CONVENTIONS سے انحراف نہیں کرنے دیتے۔ چونکہ کمیونزم کا تجربہ کافی حد تک ناکام ہوچکا ہے‘ اس لئے ماسوائے چند ممالک کے تمام دنیا نے اپنے اپنے حالات کے مطابق ’’ معمولی ردوبدل‘‘ کے ساتھ مندرجہ بالا نظاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیا ہے۔ پاکستان میں مختلف ادوار میں دونوں سسٹم آزمائے گئے ہیں۔ ہر آمر کی خواہش ہوتی ہے کہ صدارتی نظام رائج ہو۔ سیاستدان پارلیمانی نظام کے حامی ہوتے ہیں‘ اس کشمکش اور ’’تگ ودو‘‘ میں دونوں نظام آزمائے گئے۔ ایوب خان نے جب ’’بزور شمشیر‘‘ اقتدار سنبھالا تو 1956ء کے آئین کوردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ کافی عرصہ تو مارشل لاء کے زور پر گزارا لیکن بالآخر صدارتی نظام لانے کا عزم کیا۔ آج بھی لوگ ایوب خان کے دور کو یاد کرتے ہیں ۔تب غریب اور امیر میں اس قدر فرق نہیں تھا اس لیے اگر اب بھی اس نظام کی بات کی جاتی ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن