اک دعوت فکر
گھر سے نکلے آج لبیبہ خانم کو پانچواں ہفتہ تھا۔اس کے گھرانے کیلئے خانہ بدری کا یہ پہلا موقع نہ تھا۔اس کے دادا افراہیم جودت بیگو وچ نے صدی کے آغاز میں بلکان کو چھوڑ کر ارمن کے شہر نخچوان میں سکونت اختیار کرلی تھی ۔اور اس سے بھی کئی صدیاں پہلے جب ، فلپ پنجم نے غرناطہ ،بلکہ سارے اندلس ہی کے مسلمانوں اور یہودیوں کے سامنے شرط رکھی تھی کہ یا مذہب ترک کریں ،یا ملک چھوڑیں ،یا جان سے ہاتھ دھوئیں،تو لبیبہ خانم کے یہودی النسل اور یہودی المذہب جد اعلی ،شاعر،فقیہ اور کاہن اعظم ذئب بن صالح نے جلاوطنی کو گلے لگا کر چار سوبرس کے بسے بسائے گھر ،کتب خانے ،اور دنیاوی املاک ،سبکو اپنے ہاتھوں سے آگ دے کر سربیہ (serbia) کے مشہور شہر بیوغراد (موجودہ بلغراد) ، میں پناہ لی تھی ۔وہاں ان دنوں عثمانیوں کی حکومت تھی اور مسلمان ،یہودی ،عیسائی ،زرتشتی،سب کے سروں اور گھروں پر سلطان بایزید ثانی کا سایہ عاطفت تھا۔اس زمانے میں اندلس میں متوطن اکثر یہودیوں کی طرح ذئب بن صالح کی بھی زبان بھی عربی تھی۔اس کے مذہبی عقائداور تصورات دنیاوی ودینی پر تیرھویں صدی عیسوی کے موسی بن میمون کے فلسفے کا گہرا اثر تھا۔موسی بن میمون کی تعلیم یہ تھی کہ جہاں تک حق کا سوال ہے ،تمام مذاہب اپنے اپنے طور پرحق کی ہی طرف لے جاتے ہیں ،لیکن روز مرہ کی بودوباش اور معیشت کیلئے عبرانیت ہی سب سے اچھا مسلک ہے ۔
اب ہم آتے ہیںمسلمانوں کے فکری عروج کی جانب۔مسلمانوں کے علمی عروج کا زمانہ مامون الرشید کا دور ہے ۔جہاں "دارالحکمت" کے نام سے قائم کئے گئے ادارے نے دنیا بھر سے گھر یا سارا علم نچوڑکراسے بغداد کے علماء کی علمی پیاس بجھانے کیلئے جمع کر دیا۔کون ساایسا علم تھا جس پر مسلمانوں کو دسترس نہ رہی ہو ۔انہوں نے فلسفے کو آسان زبان میں سمجھاتے ہوئے ، ریاضی سے لے کر (علم الا اعداد، جیومیٹری ،فلکیات ،جغرافیہ ،موسیقی ،نظری اور عملی فنون، اخلاقیات)،طبعیات(حقیقت مادہ،شکل ،حرکت ، زمان ومکان، آسمان، معدنیات، حقیقت فطرت ،نباتات، حیوانات،جسم انسانی ،حواس، زندگی اور موت ،لذت اور اذیت لسانیات)۔ماہ بعد الاطبیعیات) نفسیاتی عقلیت، دینیات، نفس، محبت، حیات بعد ممات ،علمت ومعلول، ایمان ،قانون ایزدی، نبوت،تشکیل کائنات اور جادو وغیرہ تک کی حقیقتیں بیان کردیںکہ علم کی تین قسمیں ہیں ۔ایک علم وہ ہے جو حواس خمسہ سے حاصل ہوتا ہے ۔یہ علم ضروری ہے کیونکہ ہمیں اپنے گردوپیش کا علم اسی ذریعے سے حاصل ہوتا ہے ۔دوسرا علم وہ ہے جو عقل اور غوروفکر سے حاصل ہوتا ہے،لیکن اس کے لئے بھی حواس خمسہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔تیسرا علم وہ ہے جو آسمانی کتابوں سے حاصل ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں۔ایک ضرورت یہ ہے کہ وہ خود زندہ رہے،دوسری ضرورت یہ ہے کہ اسکی نسل زندہ رہے ۔پھر اسکے علاوہ دوسری روحانی ،جذباتی اور تہذیبی ضروریات بھی ہیں اور سب سے اہم ہیں ،لیکن سب سے زیادہ بنیادی ضرورت تو یہی ہے کہ وہ خود زندہ رہے ۔اگر وہ خود ہی زندہ نہیں رہے گا تو نسل کے زندہ رہنے،روحانی عرفان اور تہذیبی ترقی وغیرہ کی نوبت کیسے آئے گی۔زندہ رہنے کیلئے ظاہر ہے کہ غذاکی ضرورت ہوتی ہے اور غذاء حاصل کرنے کا مسئلہ جانور اور قدیم انسان کا مسئلہ بھی تھااور جدید دور کے انسان کا مسئلہ بھی ہے ۔لیکن تاریخ کے ہزاروں سال میں اس مسئلے کی نوعیت بہت بدل گئی ہے ۔جانور اور قدیم انسان کیلئے غذا حاصل کرنے کامسئلہ سیدھا سادہ تھایعنی طاقت کے ذریعے غذا تلاش کرکے یا شکار کرکے غذا حاصل کرتا تھا۔آج بھی بہت حد تک صورت حال کچھ ایسی ہی ہے لیکن طاقت کے استعمال اور "شکار"کے طریقے بدل گئے ہیں اور بہت پیچیدہ ہوگئے ہیں۔غذا کی تلاش ،اسکا حصول اور اسکا استعمال اب ایک وسیع نظام بن گیا ہے جیسے "معاشی نظام" کہتے ہیں ۔ اور جس سے منہ موڑکر ہم تقریبا تقریبا غیروں کے محتاج بھی ہیں اور نقال بھی "انشاء اللہ معیشت مضبوط ہوگی"سنتے سنتے ہم نے بڑھاپے کو جالیا،کان پک گئے مگر جب معیشت ہمارا موضوع ہی نہیں تو ہم ایک پائیندہ وتابندہ قوم کیسے بنیں گے؟یہ ہے ایک دعوت فکر اہل علم ،اہل ہنر،اہل سیاست اور اہل مذہب کیلئے ۔رہے اہل معیشت ،تو وہ ہمارے پاس ہیں ہی کہاں؟