سرفراز اور امام کے مسائل!!!!
میچ سرفراز احمد کے ہاتھ سے نکل رہا تھا، بلے باز کو کئی مواقع ملے، ایج لگے، گیند وکٹوں کے پاس سے گذر گئی، ریورس سویپ کھیلا پھر بھی بچ گئے۔ گیند بازوں کی تمام کوششوں کے باوجود وکٹ نہ ملی تو کپتان کی برداشت بھی ختم ہو گئی اسکی زبان سے ایسے جملے ادا ہوئے جس نے انہیں دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا۔ جب سرفراز نے متنازعہ الفاظ بولے اسی وقت ساتھی کمنٹیٹر نے رمیض راجہ سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ سرفراز احمد کو بولنے بلکہ بہت بولنے کی عادت ہے۔ اکثر وکٹ کیپرز عادت سے مجبور کچھ نا کچھ بولتے رہتے ہیں۔ سرفراز احمد کا شمار ان وکٹ کیپرز میں ہوتا ہے جو خود کو ہر وقت مصروف رکھتے ہیں۔ اپنے پلیئرز پر بھی بولتے رہتے ہیں لیکن جو الفاظ انہوں نے تیسرے ون ڈے کے دوران کہے اس سے قومی ٹیم کے کپتان ناصرف شرمندہ ہوئے ہیں بلکہ انہیں مستقبل میں بھی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ میزبان ٹیم نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگذر سے کام لیا ہے۔ جنوبی افریقہ کے پلیئر سے بھی صلح ہو گئی لیکن ایک ایسے ملک جہاں ایک اس حوالے سے خاص تاریخ ہے وہاں پاکستانی کپتان کے منفی جملے یقینا قابل مذمت ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس میں ارادتا کچھ نہیں تھا جو سرفراز بولے ہیں اسکی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ بحیثیت کپتان انہیں زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر کپتان کے ہی ہاتھ پاوں پھول جائیں اسکا خود پر قابو نہ رہے تو دیگر کھلاڑی اس سے کیا سبق لیں گے۔ ٹیسٹ میچوں میں خراب نتائج کے بعد وہ پہلے ہی تنقید کی زد میں تھے اس واقعہ سے اعتماد مزید خراب ہو گا۔ انکی کپتانی پر پہلے ہی خاصے تنازعات بن چکے ہیں پھر ذاتی کارکردگی بھی اتنی اچھی نہیں ہے کہ ڈریسنگ روم میں دیگر کھلاڑیوں پر رعب و دبدبہ قائم رکھ سکیں۔ ایسے میں دوران میچ منفی جملوں سے کپتان مزید دباو میں آئیں گے۔
دوسری طرف نوجوان افتتاحی بلے باز امام الحق کو سنچری سکور کرنے کے بعد بھی تنقید کا سامنا ہے۔ اسکی وجہ سنچری کے بعد ناقدین کو خاموش رہنے کے اشارے اور پھر سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کے اظہار پر انہیں تنقید کا سامنا ہے۔انہوں نے سنچری سکور کی اور ایسا وہ ہر میچ میں نہیں کر سکتے تو کیا ہر میچ کے بعد ناقدین کا شکریہ ادا کریں گے۔ انہیں خود کو تنازعات سے دور رکھ کر کارکردگی پر توجہ دینا ہو گی۔ انکا بیٹ، پرفارمنس ہی سب سے بڑا جواب ہے۔ امام الحق کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ جب تک کرکٹ کھیلیں گے ان پر نظریں دیگر کرکٹرز کی نسبت زیادہ ہونگی۔ جیسے انہیں چانس دیگر بلے بازوں کی نسبت زیادہ ملتا ہے تنقید بھی زیادہ ہو گی۔ اس کے لیے انہیں ذہنی طور پر تیار رہنا یو گا۔ جہاں تک تعلق انہیں ٹیم شامل کرنے کا ہے تو اس میں بھی سوال کرنیوالوں کا بنیادی سوال یہی تھا کہ کیا سمیع اسلم کو اتنے مواقع فراہم کیے گئے؟؟ کیا عثمان صلاح الدین کو اتنے چانسز دیے گئے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کے ٹاپ کاس پرفارمر عابد علی کو کیوں نظر انداز کیا گیا، فواد عالم پر ہزاورں رنز سکور کرنے کے بعد بھی قومی ٹیم کے دروازے بند ہیں۔ ان حالات میں امام الحق کو منتخب کر لیا جائے پھر انہیں مستقل کھلایا جائے تو سوالات کا ہونا غیر معمولی نہیں ہے۔ کیا کسی نے بابر اعظم کے منتخب ہونے پر سوال اٹھایا، کیا فخر زمان کی سلیکشن پر تنقید ہوتی ہے، کیا حسن علی ہدف تنقید بنتے ہیں، کیا عثمان شنواری اور شاہین آفریدی کے انتخاب پر اعتراضات لگائے جاتے ہیں اگر جواب نہیں میں ہے تو سمجھنے کے لیے بہت سوچنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ امام الحق کو انضمام الحق کی موجودگی کا فائدہ ہوا ہے۔ اب وہ فائدہ حاصل کر چکے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ توجہ رنز سکور کرنے پر رکھیں۔ وہ رنز کریں گے تو تعریف ہو گی نہیں کریں گے تو تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انضمام الحق نے ہمیشہ بلے باز کو منتخب کرنے سے پہلے چار پانچ فرسٹ کلاس سیزن میں بڑے بڑے رنز کو پیمانہ قرار دیا ہے کیا امام الحق کے معاملے میں انہوں نے اس فلسفے پر عمل کیا، اگر چیف سلیکٹر نے اپنے بنائے ہوئے قوانین پر ہی عمل نہیں کیا تو پھر ماہرین پر اعتراض کیسے کیا جا سکتا ہے۔ گرین شرٹ پہننے والے ہر کرکٹر کی شائقین اور ماہرین عزت کرتے ہیں۔ یہ کھلاڑی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سبز رنگ کی عزت کی حفاظت کرے۔