گلگت بلتستان ! بعد از خرابی بسیار
حکومت پاکستان اور گلگت ، بلتستان کے درمیان قیام پاکستان کے وقت معروضی حالات کی وجہ سے معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان کی سول اور فوجی حکومتوں نے اپنی سمجھ اور قابلیت کے مطابق آئینی پیکج اور سیٹ اپ دیئے۔ لیکن وہاں کے عوام کو مکمل حقوق حاصل نہ ہو سکے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور میاں نوازشریف کی سابقہ حکومت نے بھی گلگت ، بلتستان کو صوبہ کا درجہ دینے کی کوشش کی۔ لیکن عوامی رد عمل کی وجہ سے عمل درآمد نہ ہو سکا۔ تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی آتے ہی گلگت ، بلتستان پر اپنی کابینہ اور قریبی مشیروں سے صلح مشورہ کیا اور بعض لوگوں کی خواہش کے مطابق صوبے کا درجہ دینے کا عندیہ دیا۔ جس پر پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر اور سابق وزیر اعظم بریسٹر سلطان محمود چوہدری اور آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان اور دیگر کشمیری قیادت نے شدید احتجاج کیا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر امور کشمیر سے ملکر اس کی سنگینی سے آگاہ کیا اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی طرف توجہ دلوائی۔ مسئلہ کشمیر کی سنگینی اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے پس منظر میں یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا جو کہ خوش آئند ہے۔ دونوں طرف کی کشمیری قیادت نے اس کو سراہا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت ، بلتستان کے متعلق بعض آئینی درخواستوں کی سماعت کے لئے سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں قاقب نثار نے تین رکنی بنچ تشکیل دیا اس نے 17 جنوری کو محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا دائرہ اور اختیار گلگت ، بلتستان تک نافذالعمل ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے وہاں کی عوام کو بنیادی اور آئینی حقوق فراہم کرنے کا حکم دیا۔ اور کہا کہ آزاد کشمیر ، گلگت ، بلتستان کی موجودہ حیثیت تبدیل نہیں ہو گی۔
UNO کی قرار دادوں کے مطابق جب تک کشمیر پر رائے شماری نہیں ہوتی۔ پاکستان اور بھارت اپنے زیر انتظام علاقوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کے پابند ہیں۔ 1999ء کے مشہور الجہاد کیس کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ گلگت ، بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ گلگت ، بلتستان کا کوئی قانون بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ مزید کہا کہ وہاں کی عدالتیں سپریم اپیلٹ کورٹ کا اختیار صرف مقامی حد تک ہے۔ بلکہ یہ عدالتیں گلگت ، بلتستان آرڈیننس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کی بھی تابع ہیں۔ لہٰذا سپریم اپیلٹ کورٹ صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار نہیں دے سکتی۔ اگر گلگت ، بلتستان پارلیمنٹ صدارتی حکم میں تبدیل یا ترمیم کرے تو سپریم کورٹ پاکستان آئین کے تحت جائزہ لے سکتی ہے۔ گلگت ، بلتستان کے عوام کی شکایت پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کو بنیادی حقوق اور اختیارات نہیں دیئے جا رہے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے یقین دہانی کرائی کہ اختیارات دیئے جا رہے ہیں اور مزید اختیارات بھی دیئے جائیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان میں سنگین آئینی مالیاتی انتظامی مسائل گذشتہ 7 دہائیوں سے حل طلب ہیں۔ پاکستان کی تمام سول اور فوجی حکومتوں نے آئینی پیکج دیئے۔ جس پر کشمیری عوام اور گلگت ، بلتستان کی عوام اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کرتے رہے کیونکہ ان کا پیدائشی ، انسانی آئینی اور قانونی حق ہے۔ علاقے کے کشمیری اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے ، پارلیمنٹ بنانے اور عدالتی نظام چاہتے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیری عوام اور پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے سپریم کورٹ کا دائرہ و اختیار گلگت ، بلتستان تک بڑھانے کے فیصلے پر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ گلگت کھل کربول رہے ہیں لیکن یہ بعداز خرابی بسیار واویلا ہے۔ اس فیصلے کو بھارت میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے خوب اچھالاہے ۔ اصولی طور پر آزاد کشمیر کی بڑی پارٹیوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جو حکومت اس وقت آزاد کشمیر میں برسر اقتدار ہے اس کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کو نمائندے کی حیثیت سے سپریم کورٹ میں باقاعدہ فریق بننا چاہیے تھا۔ وزیراعظم صاحب کے وزیروں مشیروں اور معاون خصوصی کی کثیر تعداد نے بھی ان کو مشورہ نہ دیا۔ بہرحال پوری کشمیری کمیونٹی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اچھا نہیں سمجھتی۔