افغانستان میں امریکی رسوائی اور پسپائی
پسپائی کے بگل بج رہے ہیں امریکی ‘‘افغان کمبل’’ سے جان چھڑانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں چند ہفتے پہلے پاکستان کو آنکھیں دکھانے والے امریکی دیدہ و دل راہوں میں بچھا رہے ہیں افغان کوہساروں میں امریکی جاہ و جلال خاک میں مل گیا۔ 18 برس کی خون ریز جنگ کے بعد 18 ماہ میں اپنی تمام افواج قاہرہ کو واپس نکال لے گا ہر قسم کے کیل کانٹے سے نیٹو اتحادی افواج بھی داغ رسوائی لیکر اپنے اپنے ملکوں کو سدھاریں گی امریکہ بھی آنجہانی سوویت یونین کے انجام سے دوچار ہوگیا۔ ٹرمپ نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ افغان جنگ نے عظیم سوویت یونین کو روس بنادیا تھا امریکہ بھی اربوں’ کھربوں خرچ کرکے افغانستان میں ناکام و نامراد رہا۔ ہمارے دوستوں نے دھوکہ دیا امریکہ بھی اس لاحاصل اور بے مقصد جان چھڑا رہا ہے۔تقریباً دو دہائیاں قبل افغانستان کے کوہساروں پر آگ وبارود کی جو بارش برسی تھی، اس کا انجام سامنے آگیا۔ سوویت یونین کے بعد آخر کار دنیا کی واحد عالمی طاقت امریکہ کو بھی اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے پاکستان کی منت سماجت کرنا پڑی کل کے قیدی’ آج کے ممتاز مذاکرات کار ملا عبدالغنی برادر نے ایک ہفتے جاری رہنے والے مذاکرات میں شاطر امریکیوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔گو سرکاری اعلان ابھی آنا باقی ہے لیکن مغربی میڈیا اور سوشل میڈیا سے آخر کار یہ اعلان سامنے آچکا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی افواج جلد ہی نکال لیں گے اور افغانستان میں ایک نئی عبوری حکومت تشکیل پائے گی جس کے ذریعے ایک پائیدار اور مستقل بنیادوں پر شراکت اقتدار کے فارمولے کے تحت عنان اقتدار نمائندوں کو مل جائے گی اور افغانستان میں ایک نئے دور کا تابناک سورج طلوع ہونے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔مذاکرات کے اندرونی ماحول بارے تفصیلات بڑی دلچسپ ہیں۔
افغان مصالحتی عمل کیلئے امریکی حکومت کے نمائندے زلمے خلیل زاد کی قیادت میں، اعلیٰ سطحی وفدجبہ و دستار بند مولویوںسے مذاکرات کررہا ہے۔ وہ طالبان مذاکرات کاروں سے شدید متاثر ہیں ۔ اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد فارسی اور پشتو میں بھی بات کررہے ہیں۔ دلچسپ بات کہ زلمے، ان مولویوں کی امامت میں نماذیں بھی ادا کررہے ہیں۔کہیں مذاکرات کے اختتام تک زلمے خلیل زاد بھی امیر المومنین مولوی ہیبت اللہ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرلیں۔امریکی وفد کے ایک رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ کچھ معاملات پر طالبان کا موقف غیر لچکدار ہے لیکن وہ
بہت ہی مدلل اور شائستہ گفتگو کررہے ہیں اور بات چیت کا ماحول بہت خوشگوار ہے۔ فوجی انخلا کے دوران واپس ہوتی غیر ملکی فوج کو مکمل تحفظ و احترام فراہم کیا جائیگا۔نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کی سرزمین امریکہ سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔افغان میں موجود نیٹو اسلحہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔طالبان کا اصرار ہے کہ نیٹو یہ سارا اسلحہ انکے حوالے کردے یا اپنے ساتھ واپس لے جائے۔ اسلحہ واپس لے جانے کا خرچ بہت زیادہ ہوگا جو امریکہ کی پریشانی کا باعث ہے۔ جنرل ووٹل نے یہ اسلحہ پاکستان کو فروخت کیلئے پیش کیا تھالیکن اسلام آباد کو اس میں دلچسپی نہیں۔ ممکن ہے کہ اسلحے کی بڑی کھیپ کو افغانستان ہی میں تباہ کردیا جائے۔
طالبان، امریکہ نواز افغان حکومت اور انکے حلیفوں کو عام معافی دینے پر تیار ہیں۔انکا کہنا ہے کہ نیٹو انخلا کے بعد بننے والی عبوری حکومت میں اشرف غنی انتظامیہ کی اچھی شہرت رکھنے والے افراد کو شامل کیا جائیگا۔ طالبان کو موجودہ افغان حکومت میں کرپشن پر شدید تشویش ہے۔انخلا کے ٹائم ٹیبل پر بھی اتفاق ہوگیا ہے اور جون 2020ء تک غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائینگی۔ اب امریکہ کا مطالبہ بگرام ایئر بیس تک محدود ہوگیا ہے لیکن طالبان کیلئے یہ بھی ناقابل قبول ہے ۔اس معاملے پر طالبان اپنا موقف تبدیل کرنے کوتیار نہیں۔ عبوری جنگ بندی پر اصولی اتفاق ہوتا نظر آرہا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ امن معاہدہ ہوجانے کی صورت میںنیٹو افواج پر گولی نہیں چلائیں گے لیکن انخلا مکمل ہونے تک وہ اپنے ہتھیار نہیں رکھیں گے۔ افغان فوج کے بارے میں طالبان کا کہنا ہے کہ اگر وہ ہتھیار ڈالدیں تو انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا۔ بصورت دیگر طالبان افغان نیشنل آرمی حملے پر جاری رکھیں گے۔ جو پاکستانی نام نہاد روشن خیال دانشور افغان طالبان کو جاہل و اجڈ لوگوں کے ہجوم قرار دیتے رہے ہیں وہ لوگ، طالبان اور امریکہ کی لڑائی کو فرعونیت بمقابلہ جہالت کی جنگ قراردے رہے تھے۔ لیکن یہ 'اجڈوگنوار' مولوی منجھے ہوئے سفارتکاروں سے،جس حلم و متانت لیکن پرعزم لہجے میں بات کررہے ہیں۔ اس سے، امریکی سفارت کار بھی بے حد متاثر ہو رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات سے جونکات سامنے آئے ہیں، ان کے محتاط تجزیے کے مطابق طالبان اور امریکی مذاکرات کاروں میں ایک معاہدے پر اتفاق ہوگیا ہے جس پر دستخط ہوتے ہی آئندہ اٹھارہ ماہ میں افغانستان میں موجود غیرملکی افواج اپنے اپنے وطن واپس چلی جائیں گی۔
افغانستان کے لئے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد مسلسل چھ دن سے مذاکرات میں مصروف عمل تھے، ان کے اختتام پر اس اطلاع نے پوری دنیا میں ہلچل پیدا کردی ہے اور یکسر ایک نیا منظر ہمارے سامنے ہے جس سے افغانستان میں دہائیوں سے جاری افراتفری ختم ہونے کی سبیل پیدا ہوتی نظرآرہی ہے۔ اس خبر کی تصدیقی امریکی حکام نے باضابطہ طورپر ابھی نہیں کی ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری اعلامیہ ہی ان مذاکرات کے اختتام پر تاحال جاری ہوا ہے۔ زلمے خلیل زاد قطر میں بات چیت کے بعد افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو اعتماد میں لینے کے لئے کابل روانہ ہونے کی خبریں بھی آئی ہیں جہاں وہ افغان صدر سے مستقبل اور حال کے حوالے سے تمام جزئیات پر بات کریں گے۔ اپنے ٹوئیٹر پیغام میں البتہ افغان مفاہمتی عمل کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے یہ ضرور کہا ہے کہ ’’دوحہ میں ملاقاتیں ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ تعمیری رہیں ، کئی معاملات پر کام کرنا ابھی باقی ہے ، افغانوں کے مابین بات چیت اور جامع جنگ بندی پر اتفاق رائے تک کچھ بھی طے نہیں ہوگا۔‘‘ اپنے ایک اور پیغام میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ’’وہ دوحہ میں چھ روزہ مذاکرات کے بعد بات چیت کے لیے افغانستان جا رہے ہیں۔ بنیادی معاملات پر اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ مذاکرات کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے جلد دوبارہ بات چیت کا آغاز کریں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’جب تک سب باتوں پر اتفاق نہیں ہو جاتا، کچھ بھی منظور نہیں ہوگا ، سب باتوں پر اتفاق میں افغانوں کے مابین مذاکرات اور جامع جنگ بندی شامل ہے۔‘‘ مزید کہا کہ ’’مذاکرات کرانے کے لیے قطر حکومت کے تعمیری تعاون اور قطر کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی ذاتی شمولیت پر شکر گزار ہیں۔‘‘امریکی صدر ٹرمپ کی نائب سیکریٹری اور نیشنل سکیورٹی برائے جنوبی اور وسطی ایشیاء کی سینئر ڈائریکٹر لیسا کرٹس بھی زلمے خلیل زاد کے ہمراہ ہیں۔ مذاکراتی عمل میں اس تیزی کی ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ افغانستان کے مسئلے سے جلد ازجلد جان چھڑانے کے خواہشمند ہیں۔ مغربی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں میں امریکی انتظامیہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں امریکی صدر یک طرفہ طورپر افغانستان سے انخلاء کا اعلان نہ کردیں جس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ زلمے خلیل زاد جس طرح پکا ڈیرہ لگا کر اسلام آباد میں بیٹھے اور پھر قطر گئے، اس طرح کا رویہ اس سے قبل امریکہ اور اس کے حکام کی طرف سے دیکھنے میں کبھی نہیں آیا۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ خود امریکی انتظامیہ کے اندر بھی کوئی ایسی کھچڑی پک رہی ہے جس کے بارے میں سردست تفصیل موجود نہیں یا پھر حکمت عملی کے تقاضے کے تحت سامنے نہیں لائی جارہی۔
امریکہ میں ستمبر گیارہ کے ہونے والے دو عمارتوں اور پینٹاگون پر حملوں کے نتیجے میں افغانستان پر حملہ کو ہی دنیا اور بالخصوص امریکہ کو محفوظ بنانے کا واحد آپشن بنا کر پیش کیاگیاتھا۔ افغانستان میں اس وقت طالبان کی حکومت تھی اور تان اسامہ بن لادن پر آکر ٹوٹی تھی۔ پھر اچانک حملہ ہوا۔ پاکستان وہ ملک تھا جس نے افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کررکھاتھا۔ پھر مذاکرات کا آغاز ہوا، وفود گئے، رنگ برنگی خبروں کا نتیجہ ناکامی کے اعلان پر منتج ہوا اور پھر امریکی حملہ آور ہوگئے اور پاکستان کا اپنا امن، چین اور استحکام بھی پارہ پارہ ہوگیا۔ جنرل مشرف کی فوجی حکومت نے ٹیلی فون کال پر امریکیوں کی تمام شرائط تسلیم کرلی تھیں اور ایک ایسے دردناک دور کا آغاز ہوا تھا جس کی خونریز یادیں اب بھی ہماری قومی یاداشت میں محفوظ ہیں۔ ’’آپریشن اینڈیورنگ فریڈم‘‘ یا آزادی کی بقاء کے لئے کارروائی آخر اسی انجام سے دوچار ہوئی جس کا برس ہا برس قبل بیانات سے اعلان ہواکرتاتھا۔ طاقت اور سرمایہ میں جھومتے طاقتور ممالک ایسی کوئی بات سُننے کو بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ ننگے پائوں، کسی وردی کی جھنجھٹ سے بھی آزاد طالبان ایک بارپھر ایک ایسی قوت بن کر اُبھرے ہیںجو پھر فتح یاب ٹھہری۔ عالمی طاقت سمجھی جانے والی دو قوتوں کی تو کیابات کریں، دیکھا جائے تو پوری طاقتور دنیا ہی افغانستان کے پہاڑوں، میدانوں اور خارزاروں میں دھول چاٹتی نظرآئی ہے۔ (جاری)