• news
  • image

اعداد و شمار کا اِدھر سے اُدھر ہونا

اعداوشمار کو ادھر ادھر کرنے کا نام منی بجٹ ہے۔ بجٹ یکم جنوری سے شروع ہوکر 31 دسمبر کو پورے کیلنڈر سال کیلئے ہونا چاہئے۔ اسکی شروعات اب بھی ہو سکتی ہے۔ 5 ماہ کی حکومت کے دوسرے منی بجٹ کا اعلان ہوا ہے۔ عوامی مفاد کی بات کم لاگت گھروں کیلئے قرض حسنہ سکیم کا اعلان ہے۔ سرمایہ کاری کی رفتار تیز نہیں ہو پارہی۔ بات تب بنے گی جب گیس‘ بجلی‘ پٹرول اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں کم ہونگی۔ گزشتہ دنوں دوائوں کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا گیا‘ اس میں کمی کی جاتی‘ اسدعمر یہی کہہ رہے ہیں شرائط بہتر ہوئیں تو آئی ایم ایف کے پاس جائینگے۔ ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ فی الحال حکومتی ترجیحات میں پہلے نمبر پر کاروبار ‘دوسرے نمبر پر زراعت اور تیسرے نمبر پر مکانات کی تعمیر ہے۔ پچاس لاکھ نئے گھر بن گئے تو یہ واقعی بڑی تبدیلی کہلائے گی۔ قرض حسنہ سکیم صرف پانچ ارب روپے پر مشتمل ہے۔ ایک گھرکی لاگت 30 لاکھ روپے ہو تو اس عوامی سکیم سے صرف 1700 گھر ہی تعمیر ہو سکتے ہیں۔
ملائشیا ‘ ترکی اور قطر کے دوروں میں بھی وزیراعظم نے گھروں کے منصوبے کا ذکر کیا۔ ایک کروڑ ملازمتوں کا دعویٰ کیسے‘ کب اور کون پورا کریگا؟ سٹیل مل اور پی آئی اے سالانہ سوا ارب روپے خسارے میں چل رہے ہیں۔ ان اداروں کا کیا مستقبل ہے؟ یہ مان لینا چاہئے کہ بجٹ اب سالانہ نہیں رہا ‘ سہ ماہی معمول بن چکاہے۔ ٹیکس کے باب میں فائلرز اور نان فائلرز میں تفاوت ختم ہونا ضروری ہے۔ شرح خواندگی کم ہونے کے پیش نظر ٹیکس گوشوارہ آسان اور اردو میں ہونا ضروری ہے۔ جب جائیدادوں‘ گاڑیوں اور غرضیکہ بنکوں کے ذریعے ہر لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد ہے تو پھر بلا تخصیص ہر شہری کیلئے فائلر ہونے کی شرط بھی عقل سے ماورا ہے۔
معیشت کیلئے بنائی ایڈوائزی کونسل کا کچھ پتہ نہیں۔ حکومت اپوزیشن میں لفظی گولہ باری سے فریقین نقصان میں ہیں۔ دھمکیاں‘ گالیاں‘ گلی محلوں کے لونڈوں کا کلچر ہے۔ اسے اسمبلی میں کون لے آیا۔ حکومت کے پہلے 100 دن کے بعد 150 دن بھی گزر گئے۔ سیاحت سے ملک کو امیر بنانے کا خواب پورا ہونے جا رہا ہے۔ پاکستان نے دنیا کیلئے دروازے کھول دیئے ہیں۔ 175 ممالک کیلئے آن لائن‘ 50 کیلئے ایئرپورٹ ویزا دیا جائے گا۔ کب تک سعودی عرب کے ڈالروں سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے چلے جائینگے۔ خدا خدا کرکے ذخائر 15 ارب ڈالر سے متجاوز ہوئے ہیں۔ امارات سے دو ارب ڈالر اور چین سے تین ارب ڈالر ٹرانسفر ہوگئے تو ذخائر 20 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو جائینگے۔
اصلاحاتی پیکیج ہوں یا منی بجٹ‘ کئی درجن بار سامنے آچکے ہیں فسکل یعنی مالیاتی خسارہ‘ تجارتی خسارہ اور بجٹ کا خسارہ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔ کسی وزیرخزانہ کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں ہوتا جو آن واحد میں سارے خساروں پر پانی پھیر دے۔ 2007ء سے انڈسٹریل گروتھ گرتی جا رہی ہے۔روپے کی ناقدری کا کسے علم نہیں۔ ایک باب میں گروتھ قابل رشک ہے۔ وہ آبادی ہے جسکے آگے کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہو سکتا۔ نومبر میں سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر بھجوائے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا‘ لیکن چند ہفتوں میں ذخائر پھر پہلی سطح پر آگئے۔ دسمبر میں پھر سعودی عرب کی بدولت ذخائر میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا‘ لیکن پھر ذخائر جوں کے توں ہوگئے۔
ہم بجٹ کے خسارہ کا علاج کرنے کی بجائے ایڈ پیکجوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ قرضے سعودی عرب کے ہوں‘ قطر سے ملیں یا امارات سے‘ فری ’’لنچ‘‘ نہیں ہوتے۔ عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جن کا ایجنڈا کرپشن سے چھٹکارا اور 300 سے 400 روپے یومیہ اجرت والے 13 کروڑ پاکستانیوں کو غربت کی دلدل سے نکالنا ہے۔ ہمارا دفاعی بجٹ 1100 ارب کا ہے تو گردشی قرضہ 1400 ارب جس میں دوارب یومیہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ 2013ء میں سرکاری اداروں کا مجموعی خسارہ 495 ارب تھا‘ لیکن (ن) لیگ کے دور میں یہ خسارہ 1100 ارب ہو گیا۔ اتفاق سے دفاعی بجٹ بھی 1100 ارب تھا۔ عمران دور میں گردشی قرضے میں 260 ارب جبکہ سرکاری اداروں کے خسارے میں 1500 ارب کا اضافہ ہوا ہے۔نیشنل ڈیٹ میںیومیہ 15 ارب روپے کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ (ن) لیگ دور میں رفتار 8 ارب یومیہ تھی۔ 7 ماہ کے دوران حکومتی قرضوں میں 4 گنا اضافہ مجموعی حجم 76 کھرب 150 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
ریاست مدینہ میں ادائیگی نماز کولازمی قراردیا گیاہے۔ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی دکانیں اور لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ ہر مسجد سے لائوڈ سپیکر پر ادائیگی نماز سنائی دیتی ہے۔ یہ عمل پاکستان میں ہونا ناممکن نہیں ۔ باجماعت نماز کی آواز سُن کر بے نمازیوں کے دلوں میں بھی نماز کا شوق پیدا ہو گا۔ لوگ باوضو رہیں گے تو لایعنی باتوںسے ممکنہ حد تک گریزکریں گے۔ریاست مدینہ کا نمایاں وصف عدل و انصاف ہے وہاں کوئی ایساایوان عدل نہیں جہاں مقدمات کی بھرمار ہو اوردیوانی مقدمے ایک سے دوسری نسل کومنتقل ہوتے ہوں۔ مقدمات کونمٹانے کی مدت 90 دن بھی مقرر کی جا سکتی ہے۔ تھانوںمیں ایف آئی آر درج کرانے سے قبل یہ ضروری قرار دیا جائے کہ درخواست گزار بیان حلفی اور و گواہ سامنے لائے کہ اسکی شکایت سو فیصد سچ پرمبنی ہے اور اگروہ جھوٹا ثابت ہو تو اس کامواخذہ کیا جائے۔
عدالتی نظام کا سب سے بڑا سقم جھوٹے پرچے اور جھوٹے مقدمات ہیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اعلان کر چکے ہیںکہ وہ جھوٹے مقدمات اور فیصلوں میں تاخیر کے خلاف ڈیم بنائینگے۔ اس ڈیم کا بننا بھی کالا باغ یا بھاشا ڈیم سے کم ضروری نہیں۔ تھانہ کلچر کے منہ پر سب سے بڑی کالک جھوٹے پرچے ا ور جھوٹے گواہ ہیں کسی بھی مقدمے میں سو سو پیشیوں کی کیا ضرورت ہے۔ تفتیش اور شواہد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے نہیں لاتے۔ ریاست مدینہ کی مجلس شوریٰ میں ایک دوسرے کونیچا دکھانے پوائنٹ سکورنگ کی بجائے بامقصد گفتگو ہوتی ہے کہ مملکت کو چلانے کیلئے کیا کچھ کرنا ہے ۔ تجاویز زیر بحث لائی جاتی ہیں۔ایک دوسرے کے کپڑے نہیں اتارے جاتے ۔ لفظ گولہ باری سے کسی کا قد اونچا نہیں ہوتا۔ ریاست مدینہ کی سڑکوں پر جگہ جگہ پولیس کے ڈیرے لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ قانون کا خوف دلوں میں جاگزیں رہتا ہے۔ ریاست مدینہ میں سڑکوں کے چوراہوں پر وارڈنوں کی ٹولیاں دکھائی نہیں دیتیں۔
سعودی عرب عالمِ اسلام کامرکز ہے لیکن اسکی سیاسی طاقت میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ وہ تمام اسلامی ملکوں سے یکساں طور پر تعلقات استوار کرے قطر اورایران سے اپنی ناراضی دور کرے مکہ مکرمہ میں ایک گرینڈ اسلامی کانفرنس کا اہتمام کرے جس میں تمام ممالک غیر مشروط طور پر سعودی عرب کو اپنا قائد تسلیم کریں ۔ ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ساری غیرمسلم دنیاکو پیغام دیں کہ وہ ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی میں برابر کے شریک ہیں جن ممالک میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں انہیں وارننگ دیں۔ سعودی عرب کو اپنی قوت کا اندازہ ہونا چاہئے کہ اسکے پاس سونے اورتیل کے نہ ختم ہونیوالے ذخائر ہی نہیں اسکی سرزمین پر روز دس لاکھ مسلمان حرمین شریفین میں جمع رہتے ہیں۔ رمضان المبارک اور حج کے موقع پر یہ تعداد پچاس لاکھ تک تجاوز کر جاتی ہے اتنے مسلمان اگر احرام باندھ کر صرف نصرمن اللہ و فتح قریب کا باآواز بلند ورد کر دیں تو تمام اسلام دشمن قوتیں پسینے سے شرابور ہو جائینگے۔ اسرائیل کی نبض ڈوبنے لگے گی۔ احرام پوش مسلمان بچے بوڑھے جوان مرد عورتیں خادم حرمین شریفین کے ایک اشارے پر جہاد کیلئے سربکف ہو سکتے ہیں۔ مسلمانوں کوتو کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ الگ بات کے سیاسی مفادات نے ہمیں پارہ پارہ کر رکھا ہے۔ جلسے جلوس دھرنے ریلیاں افرادی قوت کے بل پر ہوتی ہیں۔ حرمین شریفین میں زائرین کا بلاناغہ اجتماع اسلامی طاقت کا پرشکوہ اظہار ہی تو ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں تو پھر انہیں عمل سے بھی ثابت کرنا چاہئے کہ وہ واقعی بھائی ہیں۔ خدا کی واحدانیت پر کس کو یقین نہیں۔ قرآن کو کون آخری الہامی کتاب نہیں مانتا۔ محمدؐ رسول اللہ لاریب آخری نبی ہیں پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟ سارے اللہ اور صرف اللہ کی بارگاہ میں سربسجود ہوتے ہیں۔ طواف صرف کعبتہ اللہ کا ہوتا ہے۔ عہد رسالت میں جنگیں کیونکر لڑی گئی تھیں۔ قرآن کے نزدیک ایک مسلمان کا قتل سارے مسلمانوں کا قتل ہے تو پھر کشمیر فلسطین شام یمن برما میں مسلمانوں کا قتل ہمیں ہلا دینے کیلئے کافی نہیں ہونا چاہئے۔
بھٹو دور میں 1974ء میں لاہور میں اسلامی کانفرنس منعقد کی گئی۔ عمران خان اپنے عہد میں ایسی ہی پرشکوہ کانفرنس کا اہتمام کریں اور مسلمانوں کو احساس دلائیں کہ وہ دنیا کی بہت بڑی قوت ہیں۔ اتنا جذبۂ حریت نہ عیسائیوں میں ہے نہ یہودیوں اور نہ ہندوئوں میں ۔ یہ ناموس رسالت کی خاطر اپنے سر کٹانے اور جہاد کیلئے تیار رہتے ہیں ۔ عمران خان اس حوالے سے بھی اپنا نام پیدا کر جائیں۔

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

epaper

ای پیپر-دی نیشن