• news

جنوبی پنجاب،بہاولپور صوبہ کیلئے آئینی ترمیم سے حکومت پریشان

سینیٹ کا اجلاس دو روز کے وقفے کے بعد پیر کو منعقد ہوا ،اجلاس میں کوئی گرما گرمی دیکھنے میں نہیں آئی ،ایسا دکھائی دیتا تھا ایوان کی کارروائی خانہ پری کے لئے چلائی جا رہی ہے قومی اسمبلی اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ ہائوس میں بھی چہل پہل نظر نہیں آئی البتہ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر خاصے سرگرم عمل دیکھے گئے، انہوں دیکھتے ہی دیکھتے قومی اسمبلی کے ارکان کے طرز عمل کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمانی قائدین پر مشتمل 13رکنی کمیٹی قائم کر دی اسی طرح پاکستان مسلم لیگ(ن) نے جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے دو صوبے بنانے کی آئینی ترمیم قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروا کر حکومت کو پریشان کن صورت حال سے دوچار کر دیا ہے ۔ سینیٹ کے اجلاس میں جہاں ’’منی بجٹ ‘‘ پر بحث جاری رہی وہاں ای سی ایل ،بلیک لسٹ کے علاوہ تیسری لسٹ کی باز گشت سنی گئی ،ایوان میں سینیٹرز کی جانب سے ای سی ایل اور بلیک لسٹ کے حوالے ’’تند و تیز ‘‘ سوالات کئے تاہم ایوان میں بلیک لسٹ کے خاتمے کے حوالے سے مجلس قائمہ کی رپورٹ منظور کر لی گئی اپوزیشن سینیٹرز نے بلیک لسٹ اور پی این آئی ایل کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں حکومت سے وضاحت طلب کر لی ہے ،دلچسپ امر یہ ہے ،وزارت داخلہ ،ایف آئی اے اور پاسپورٹ حکام دونوں لسٹوں کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں،مذکورہ لسٹیں بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں سے پیسے بٹورنے کیلئے بھی استعمال کی جاتی ہیں بدترین آمریت میں بھی صرف ای سی ایل تھی لیکن اب تین تین لسٹیں بن گئی ہیں بہر حال وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے یقین دہانی کرائی کہ اس صورت حال بارے وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی سینیٹر ز کے تحفظات کودور کریں گے،سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کے چیئرمین سینیٹر جاوید عباسی نے بلیک لسٹ ختم کرنے کے حوالے سے مجلس قائمہ کی رپورٹ پیش کی ، مجلس قائمہ کے اجلاس میں تمام متعلقہ ادارے بلیک لسٹ کے قانون سے لاعلم تھے ، سابق چیئر مین میاں رضا ربانی دبنگ سینیٹر ہیں انہوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ’’ وزارت داخلہ ایوان میں آکر بتائے کہ بلیک لسٹ کے علاوہ پی این آئی ایل لسٹ کیا ہے اور یہ کس قانون کے تحت بنائی گئی‘‘ ، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ جب تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہوگا کہ یہ لسٹیں کب شروع ہوئیں تب تک ہم معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکیں گے پیر کو ایوان بالا میں سینیٹر اورنگزیب،سینیٹر دلاور خان، سینیٹر نزہت صادق،ڈاکٹر شہزاد وسیم، سینیٹر محمد اکرم ،سینیٹر گل بشری و سینیٹر محمد ایوب دیگرنے ضمنی مالیاتی ( دوسرا ترمیمی) بل 2019پر اظہار خیال کیا اپوزیشن ارکان نے کہاکہ ’’حکومت کامنی بجٹ ایک ریلیف پیکج نہیں بلکہ ایک سیاسی بیان ہے عوام کی مصیبتوں میں اضافہ کر دیاگیا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اسد عمر کی ایوان میں عدم موجدگی کا نوٹس لیا اور کہا کہ ٓ ج کے اجلاس میں وزیرخزانہ اور وزیر مملکت خزانہ اور سینئر حکام ایوان میں موجود نہیں ہیں، اس لئے منی بل پر بحث کا فائدہ نہیں ہے، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وزراء مصروف ہیں انہوں نے تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ وہ مصروفیت کے باعث آج موجود نہیں ہوں گے لیکن وزارت خزانہ کے سینئیر حکام اور دیگر وزراء نو ٹس لیں گے۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ وزیر خزانہ مصروف تھے لیکن وزیر مملکت خزانہ کو موجود ہونا چاہیے تھا، سینیٹ کے اجلاس کو اہمیت دینی چاہیے، وزراء کی حاضری آئندہ کاروائی کے دوران حاضری یقینی بنائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن