شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی راہ ہموار
نواز رضا
قومی اسمبلی کا ساتواں سیشن کا اچانک غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا جانا اس لحاظ سے غیر معمولی واقعہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی تقریر اس حد تک ’’ناگوار‘‘ گذری کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ’’ منی بجٹ‘‘ کی منظوری لینے کی بجائے ملتوی کرا دیا۔ وزیر اعظم عمران خان ساڑھ تین ماہ کی غیر حاضری کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں ’’رونق افروز‘‘ ہوئے تو نہ صرف اپوزیشن نے مخالفانہ نعرے بازی کر کے ان کا استقبال کیا بلکہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے ’’سلیکٹیڈپرائم منسٹر‘‘ ’جو ان کی چھیڑ بنی جارہی ہے ‘ کا ’’طعنہ ‘‘دے کر انہیں مشتعل کر دیا ہے۔ منی بجٹ منظور کرانے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس یکم فروری 2019ء تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اچانک قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کا باعث میاں شہباز شریف کی طنزیہ تقریر اور اپوزیشن ارکان کی ’’گلی گلی شور ہے عمران خان چور ہے ، گو نیاز ی گو ‘‘ کی نعرے بازی بنی ۔ اسی روز وزیر اعظم کے خصوصی معاون نعیم الحق نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر دھمکی آمیز ٹویٹ کر کے صورت حال کو مزید کشیدہ بنا دیا ۔نعیم الحق نے کہا کہ اپوزیشن کا یہی طرز عمل رہا تو ’’ پروڈکشن آرڈر بند کروادوں گا‘‘ ان کی دھمکی نے جلتی پر تیل کا کام کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آئو دیکھا نہ تائو فوری طور پر نعیم الحق کیخلاف تحریک استحقا ق سپیکر کے پاس جمع کرا دی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری بھی اپنے حصہ کی ناراضی کا اظہار کرنے کے لئے میدان میں آگئے اور کہا کہ ’’وزیر اعظم کا احترام کرو گے تو تعاون کیا جائے گا ‘‘ حکومتی طرز عمل سے اپوزیشن بھانپ گئی کہ حکومت پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے بہانے تلاش کر رہی ہے لہذا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف نے فوری طور پر پارلیمنٹ ہائوس کے باہر پریس کانفرنس کر کے کہا ہے کہ ’’اپوزیشن لیڈر ایوان میں نہیں آئے گا تو لیڈر آف ہائوس بھی نہیں آئے گا ‘‘ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کو دھمکیاں دی ہے ، ہم نے اپنی شکایت سپیکر چیمبر میں جا کر پیش کر دی ہے،پی ٹی آئی والے بھی مانتے ہیں کہ ٹویٹ میں استعمال کئے گئے الفاظ وزیراعظم کے ہیں،ہم پارلیمنٹ کو لوگوں میں مذاق نہیں بننے بننے دیں گے ، اگر حکومت نے یہ راستہ اپنایا تو ہم بھی اس راستے پر جانے کے لیے تیار ہیں‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم نے سپیکر سے درخواست کہ ’’آپ ہائوس کے کسٹوڈین ہیں، سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ’’ ہم تو وزیر اعظم عمران خان کا تلاش گمشدہ کا اشتہار دینا چاہتے تھے لیکن وہ اچانک قومی اسمبلی میں آ گئے‘‘۔وزراء کے ٹویٹس پر بات ختم نہیں ہوئی اگلے روز وزیر اعظم عمران خان نے نمل یونیورسٹی میانوالی کے کانووکیشن میں جا کر اپنا ادھار اتارنے کی کوشش کی انہوں نے کہا کہ ’’شہباز شریف سے پوچھنا چاہیے ان میں کیا قابلیت تھی جو وہ وزیر اعلی بن گئے، وہ اپنے بھائی کی وجہ سے سیاست میں آئے، جواب دینے لگتے ہیں تو لگتا ہے پاکستان پر احسان کر رہے ہیں‘‘ چونکہ میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو آڑے ہاتھوں لیا تو وزیر ساسعظم عمران خان نے ان کا دفاع کیا اور کہا کہ وہ وزارت اعلیٰ کو پیسہ بنانے کے لیے استعمال نہیں کریں گے، نہ ہی وہ شوگر ملز بنائیں گے، جمہوریت میں ذوالفقار علی بھٹو کو ڈکٹیٹر نے بنا دیا پھر بھی انہوں نے جدوجہد کی۔ نواز شریف کو ڈکٹیٹر نے وزیراعلیٰ بنایا ، انہوں نے جدوجہد نہیں کی شہباز شریف نے عجیب سی گھٹیا زبان استعمال کی، شہباز شریف تو بھائی کی وجہ سے سب کچھ بن گئے ان کی کیا جدوجہد ہے ادھر دوسری طرف با پ بیٹا کاغذ لے کر پھررہے ہیں کہ ہمیں وراثت میں یہ سیاسی جماعت مل گئی ہے۔ شہباز شریف نے عثمان بزدار کے خلاف غلط بات کی عثمان بزدار بہترین وزیراعلیٰ ثابت ہونگے‘‘۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اپنی بساط کے مطابق ایوان کی کاروائی پرامن طور پر چلانے کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن انھیں اپنی کوششوںمیں کماحقہ ہو کامیابی نہیں ہوئی۔ قومی اسمبلی کے ساتویں اجلاس میں پیدا ہونے والی بدمزگی کے بعد سپیکر نے ایک بار پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، انھوں نے حکومت اور اپوزیشن کے رابطے قائم کر کے قومی اسمبلی کے ارکان کے طرزعمل کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمانی قائدین پر مشتمل 13 رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے کمیٹی کے سربراہ خود سپیکر ہوں گے جس میں وزیراعظم عمران خان بطور قائد ایوان ، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پیپلز پارٹی پسارلیمنٹیرین کے صدر آصف زرداری، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد ، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، ایم ایم کے کے رہنما مولانا اسعد محمود، بی این پی کے سربراہ اختر مینگل، خالد حسین مگسی شامل اورجمہوری وطن پارٹی غوث بخش مہر، شاہ زین بگٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی بھی شامل ہیں قومی اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گی کمیٹی ارکان کے رویئے کے حوالے سے بھیجی گئی شکایات کی تحقیقات کرے گی اور ارکان کی طرف سے استحقاق کے معاملات کو بھی نمٹائے گی۔پارلیمانی رہنماؤں کی کمیٹی عدالت میں زیر التوائ کسی مقدمے سے متعلق شکایت پر کارروائی نہیں کرے گی قومی اسمبلی کے سپیکر نے 13رکنی کمیٹی قائم کر کے وزیر ساعظم عمران خان ، قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو ایک میز پر بٹھانے کی راہ ہموار کر دی ہے وزیر اعظم پچھلے 6ماہ سے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے ملاقات سے گریز کر رہے تھے دونوں کے درمیان ’’دوریاں اور فاصلے‘‘ کم کرنے میں سپیکر قومی اسمبلی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں انہوں نے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے مل بیٹھنے کا ایک فورم فراہم کر دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کمیٹی کس حد تک موثر ثابت ہوتی ہے، بہرحال حکومت اور اپوزشین مل کر ہی ایوان کی کاروائی خوش اسلوبی سے چلا سکتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے ابھی تک قومی اسمبلی کا آئندہ اجلاس بلانے کی تاریخ کا تو اعلان نہیں کیا کہ لیکن مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئے ریکوزیشن جمع کرادی ہے، ریکوزیشن پر اپوزیشن کے 91اراکین کے دستخط موجود ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ ملکی اقتصادی صورتحال، مہنگائی میں اضافے، روپے کی قدر میں کمی اور امن و امان کی صورتحال پر قومی اسمبلی میں بحث کی جائے۔ ریکوزیشن قومی اسمبلی سیکرٹری کے آفس میں جمع کرائی گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے آئینی ترمیمی بل جمع کرا کر حکومت کو سرپرائز دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جس سے جنوبی صوبہ بنانے کے نعرے پر انتخاب لڑا تھا، کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہے۔ آئینی بل مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال، رانا تنویر، رانا ثناء اللہ خان، عبدالرحمن کانجو نے اپنے دستخطوں سے سیکریٹری قومی اسمبلی کے پاس جمع کرائی ہے ۔جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم سے بہاولپور، جنوبی پنجاب کے صوبوں کی تشکیل کے الفاظ شامل کئے جائیں ۔ صوبوں کی تشکیل کے لئے آئینی ترمیم کا عنوان ’آئینی (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2019ئ‘ ہے۔ بہاولپور صوبہ بہالپور کے موجودہ انتظامی ڈویڑن پر مشتمل ہوگا۔ جنوبی پنجاب صوبہ موجودہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن پر مشتمل ہوگا۔ آئینی ترمیم کے بعد ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن صوبہ پنجاب کی حد سے نکل جائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم سے صوبائی نشستوں میں ردوبدل کیاجائے۔ آئینی ترمیم کے بعد بہاولپور صوبہ کی15 جنرل ، خواتین کی تین نشستیں ملا کر قومی اسمبلی میں کل اٹھارہ نشستیں ہوجائیں گی۔ بلوچستان کی 20، جنوبی پنجاب صوبہ کی 38، خیبرپختونخوا کی 55، صوبہ پنجاب کی 117، صوبہ سندھ کی 75 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قومی اسمبلی میں تین نشستیں ہوں گی۔ ترمیم کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 326 ہوگی جس میں 266جنرل نشستیں اور 60 خواتین کی نشستیں ہوں گی۔ جنرل الیکشن 2018ء میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سے منتخب شدہ ارکان قومی اسمبلی اور پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہونے والی خواتین موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں گی۔ موجودہ اسمبلی کی مدت کی تکمیل کے ساتھ یہ شق ختم ہوجائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 59 میں ترمیم کرکے مناسب ترامیم کی جائیں۔ آئینی ترمیم کے ذریعے نئے صوبوں کی تشکیل سے قطع نظر پنجاب اسمبلی کے منتخب ارکان اپنی مقررہ مدت مکمل کریں گے جس کے بعد یہ کلاز ختم ہوجائے گا۔ ترمیم کے نتیجے میں بہاولپور صوبہ کی صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 39 ہوگی جس میں سے 31جنرل، 7خواتین اور ایک غیرمسلم کی نشست ہوگی بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی کل تعداد65، خیبرپختونخوا کی 145، پنجاب کی 252، سندھ کی 168 ہوں گی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کا موقف ہے کہ موجودہ حکومت نے جنوبی پنجاب کے نعرے پر الیکشن لڑا تھا، اب دیکھتے ہیں حکومت کیا کرتی ہے۔ اگر حکومت جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ بنانے کے لیے سنجیدہ ہے تو ہم غیر مشروط تعاون کے لیے تیار ہیں۔