مسلم لیگ کی سیاست کا ستارہ عروج پر
ندیم بسرا
ملک کی سیاست بالخصوص پنجاب کی سیاست سے اگرلفظ’’ چودھری برادران ‘‘نکال دیا جائے تو سیاسی منظرنامہ دھندلا سا جاتا ہے،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چودھریوں کی سیاسی اور عوامی خدمات کو کسی بھی صورت فراموش نہیںکیا جاسکتا،چودھری برادران وضع دار ہونے کے ساتھ دوستی بھی خوب نبھانا جانتے ہیں، ایک وقت تھا جب مسلم لیگ (ق) ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی،2002ء سے 2007ء تک چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں،جبکہ 2004ء میں چودھری شجاعت حسین قائم مقام وزیراعظم رہ چکے ہیں، لیکن 2008ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی وفاق اور ن لیگ پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی، یوں مسلم لیگ ق میں فارورڈ بلاک بنادیا گیا،فارورڈ بلاک یعنی ہارس ٹریڈنگ کا الزام شریف برادران پر عائد کیا جاتا ہے، سیاست میں کچھ ایسے داغ ہوتے ہیں جن کو جتنا بھی دھویا جائے وہ اس قدر ہی اپنا رنگ گہرا کرتے جاتے ہیں ،سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں جب بھی چھانگا مانگا کی سیاست یا ہارس ٹریڈنگ کا ذکر ہوتا ہے تو شریف برادران کانام ضرور لیا جاتا ہے، لیکن مسلم لیگ ن ہمیشہ سے ہی اس بات کی تردید کرتی آئی ہے کہ ا ن کا ہارس ٹریڈنگ سے کوئی تعلق نہیں رہا، یوں مسلم لیگ ق عروج سے زوال کی جانب آئی اور چند ارکان اسمبلی تک محدود ہوکر رہ گئی لیکن چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی قیادت اور سیاسی ویژن ہی تھا کہ انہوں نے مسلم لیگ ق کوسیاسی مواقعوں پر نہ صرف زندہ رکھا،بلکہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں چودھری پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم بھی بنوایا،پچھلے 10سالوں میں مسلم لیگ ق کو ہرطرح سے گرانے کی کوشش کی گئی، لیکن چودھری برادران کا اتفاق اورنظریاتی کارکنان سے محبت ہی تھی کہ مسلم لیگ ق نے الیکشن میں قومی اسمبلی میں 5اور پنجاب اسمبلی میں 10نشستیں جیت لیں، حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کے مقابلے میں اگر یہ نشستیں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کو سہارا دینے اور مدت پوری کروانے کیلئے بہت زیادہ سیٹیں ہیں، یوں 10سال پہلے کے وزیراعلیٰ پنجاب اب اسپیکر پنجاب اسمبلی ہیں،چودھری برادران کی وفاقی حکومت یا پنجاب حکومت میں بطوراتحادی جماعت اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اور جہانگیرترین ملاقات کے دوران گورنر چوہدری سرور کے بارے گفتگو کی ویڈیولیک ہونے کا معاملہ ہو یا پھر وزیرپنجاب معدنیات حافظ عمار یاسر پارٹی قیادت کو استعفیٰ بھجوانے کا معاملہ ہو، اس سے پورے ملک کی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا کہ شاید اب حکومت اور ق لیگ میں دراڑ پیدا ہوجائے گی، لیکن چونکہ چودھری شجاعت حسین نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بطور اتحادی چلنے کا عزم کیا ہوا ہے اس لیے انہوں نے ایک بار پھر حکومت کو مزید وقت دینے کا فیصلہ کیا،چودھری شجاعت حسین نے حکومت پرواضح کیاکہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔ دوسری جانب اگردیکھا جائے تو وزیراعظم عمران خان کی سیاسی جدوجہد یا پھر حکومتی امور کو چلانے، خطے میں امن وامان قائم کرنے کیلئے کردار، عوام کو مہنگائی میں ریلیف فراہم کرنے ، بے روزگاری کے خاتمے اور معاشی استحکام کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی جانب راغب کرنے کی کاوشیں اپنی جگہ ہیں، لیکن جب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزداریا پھر حکومتی وزراء کی بات کی جائے توایک دو کے علاوہ باقی وزراء کی کارکردگی مایوس کن ہی ہے،جیسے میاں اسلم اقبال کی کامرس، محمود الرشیدکی ہاوسنگ کی وزارت ،صحت کا شعبہ ڈاکٹر یاسمین راشد، حافظ حسین احمد کا محکمہ ایکسائز ،محکمہ خوراک کے وزیر سمیع اللہ چودھری ،وزیر زراعت ملک نعمان احمد لنگڑیال کی کرکردگی مایوس کن ہے ۔ان سمیت دیگر وزراء اپنے محکموں میں اصلاحات تاحال متعارف نہیں کرواسکے۔یہ وزراء پنجاب اسمبلی میں تقریریں بڑھ چڑھ کر کرتے ہیںمگر ان کے اداروں میں مسائل کے انبار لگ گئے ہیں۔عمران خان نے کہا تھا کہ ہر سو روز بعد وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا ۔کارکردگی نہ دکھانے والے وزراء کو تبدیل کیا جائے گا اگریہی حال رہا تووزیع اعلی پنجاب عثمان بزدار ہر سو روز بعداپنی نئی پنجاب کی کابینہ منتخب کیا کریں گے ۔ وفاقی سطح پر سیاست بھی گرم ہے اور عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر بات بھی کی جاتی ہے لیکن سچ کہا جائے توپنجاب میں پی ٹی آئی کی سیاست اور حکومت دونوںہی غیرفعال نظر آرہی ہیں۔کپتان کا پنجاب کی ٹیم کاکپتان آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی سے ہاتھ نہ ملانے کے معاملے پر میڈیا کومنطق پیش کرتاہے کہ دراصل ابھی ٹرینڈ نہیں ہوں،سیکھ رہا ہوں نا ۔وزیراعظم عمران خان کوپنجاب کو چلانے کیلئے چودھری پرویز الٰہی کی سیاسی بصیرت اور ویژن سے فائدہ اٹھانا چاہیے، پنجاب کی بیوروکریسی، پولیس ،تاجر برادری،صحافی برادری ،حتیٰ کہ اپوزیشن جماعتیں بھی چودھری برادران کے ساتھ سکون محسوس کرتی ہیں،کیونکہ حکومتی امور یا پھر پارٹی معاملات کو ہوم ورک سے ہی چلایا جاسکتا ہے، بلاشبہ چودھری برادران کے دور میں پنجاب میں نہ صرف تعلیم وصحت کے شعبوںمیں ترقی ہوئی بلکہ ریسکیو1122، ٹریفک پولیس کا نظام،امن وامان ، تھانہ کلچرسمیت دیگر قابل ستائش عوامی منصوبوں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔دوسری جانب مرکز کودیکھا جائے تو ایوان بالا اور ایوان زیریں میں حکومتی ارکان اور اپوزیشن جماعتوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی رسہ کشی جاری رہتی ہے، ایوان میں نازیبا اور غیرپارلیمانی الفاظ کا استعمال بھی معمول بن گیا ہے،مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی الزام عائد کرتی ہیں کہ حکومتی بنچوں سے ان کی قیادت بارے نازیبا زبان استعمال کی جاتی ہے،چور چور ڈاکو ڈاکو کہا جاتا ہے، جبکہ حکومتی وزراء اور ارکان کا کہنا ہے کہ اگر چوروں کو چور نہ کہیں اور کوپٹ کو کرپٹ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کا ماحول پرامن رکھنے اور غیرپارلیمانی الفاظ یا گالم گلوچ کے کلچر کو ختم کرنے کیلئے13رکنی ضابطہ اخلاق کمیٹی تشکیل دے دی ہے،کمیٹی میں وزیراعظم عمران خان، اپوزیشن لیڈر شہبازشریف، آصف زرداری ،طارق بشیر چیمہ، شیخ رشید،اخترمینگل،خالد مقبول صدیقی سمیت دوسری جماعتوں کے پارلیمانی ارکان بھی شامل کیے گئے ہیں،اسپیکر اسد قیصر نے کمیٹی 2007ء کے قاعدہ 244(بی)کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کارلاتے ہوئے تشکیل دی ہے،کمیٹی کوارکان کے غیرمناسب رویوں اور شکایات کے کیسز بھی بھجوائے جائیں گے۔اسی طرح قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن نے جنوبی پنجاب صوبے کے ساتھ صوبہ بہاولپور کی قرار داد بھی قومی اسمبلی میں جمع کروا دی ہے، جس سے یقینا تحریک انصاف کیلئے آزمائش ہوگی کہ اگر وہ ن لیگ کا ساتھ دیتی ہے توپی ٹی آئی کوسیاسی فائدہ نہیں ہوگا،کیونکہ پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب کی بات کی تھی لیکن ن لیگ بہاولپور کی بھی آواز بن گئی ہے،اس سے لگتا ہے کہ فی الحال صرف جنوبی پنجاب والو ں کو الگ سیکرٹریٹ کی صورت میں ہی فائدہ ملے گا۔آصف زرداری نے تونئے الیکشن کا اشارہ بھی دے دیا ہے،انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے حکومت نہیں چل رہی،عوامی مسائل حل نہیں ہورہے، اب نیا الیکشن ہوگا لیکن تاریخ نہیں دے سکتے،اسی طرح پیپلزپارٹی نے حکومت گرانے کیلئے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطے کرنے پربھی غور شروع کردیا ہے،اگر ملک کی معاشی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تووزیراعظم عمران خان کے پاس معیشت کو پٹری پر ڈالنے کیلئے 50لاکھ گھروں کی تعمیر بہترین فارمولہ ہے، وزیراعظم کے نزدیک گھروں کی تعمیر سے آمدنی والے لوگوں کوچھت میسر آئے گی اورمعیشت کا پہیہ چل جائے گا،جبکہ بے روزگار وں کو نوکریاں بھی ملیں گی۔جہاں دیگر اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں وہیں ان اداروں میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی شامل ہونے جارہا ہے ۔مالی سال 2019ء کی پہلی سہ ماہی رپورٹ جاری دوسری سہ ماہی ختم ہونے کے بعد جاری کی گئی ہے حالانکہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان ایک ذمہ دار ادارہ ہے اس کو چاہیے کہ اپنی سہ ماہی رپورٹ کو مقررہ وقت میں پیش کرے مگر اداروں پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے تمام ادارے بغیر کسی سمت کے چلتے نظر آرہے ہیں ۔اسٹیٹ بنک نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ جی ڈی پی کی نموکیلئے مقررکردہ 6.2فیصد کا ہدف ناقابل حصول معلوم ہوتا ہے،خریف کی فصلوں کی پیداوارگزشتہ سیزن کے مقابلے میں کم رہی،تیل کی قیمتوں میں اتارچڑھائو سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا،ڈالر کی قدر بڑھنے اور روپے کی قدر گرنے سے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں بھی اضافہ ہوا،تاہم دوسری ششماہی میں نجی اور بیرونی ذرائع سے رقوم کی آمد متوقع ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور اسٹاک مارکیٹ کے دبائومیں کمی آئے گی،اسٹیٹ بینک نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ فوری طور پرمعاشی اصلاحات کی جائیں تاکہ ملک میں پیداواری صلاحیت بڑھنے سے ترقی کی رفتار میں اضافہ ممکن ہوسکے۔اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرونی سرمایہ کار کسی بھی ملک میں بڑی سرمایہ کاری سے قبل وہاں معاشی گروتھ اور اقتصادی اعشاریوں کو دیکھتے ہیں، جس کے بعد ہی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف فوری طور معاشی پالیسی وضع کرے بلکہ معاشی ہدف کوپورا کرنے کیلئے امن وامان کی صورتحال کوبرقرار رکھنا ہوگا اور عوام میں غیریقینی کی فضاء کو ختم کرکے اعتماد بحال کرنا ہوگا۔