• news
  • image

عمران خان نے وعدہ کے باوجود صوبہ کے قیام پر کوئی پیش رفت نہیں کی

فیصل آباد ۔۔ احمد کمال نظامی
حالات جس تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیں بظاہرحکومت تو عام قانون سازی کے بارے بھی ناکام نظر آتی ہے مگر اب مسلم لیگ(ن) نے جوابی وار کر کے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرائی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صوبہ بہاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے لئے آئینی ترمیمی بل پاس کرایا جائے۔ 2018 ء کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف سمیت پاکستان کی بیشتر جماعتیں صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے حمایت کرتی رہی ہیں اور تحریک انصاف نے تو الیکشن ہی جنوبی صوبہ پنجاب کے قیام کے نعرہ پر لڑا تھا اور کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ مسلم لیگ(ن) نے اب اس مطالبے میںصوبہ بہاولپور کا اضافہ کر دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے پریس کانفرنس میں اپنی جماعت کے اس سلسلے میں مؤقف کا اعادہ کیا ہے ۔ قومی اسمبلی کے ارکان رانا ثناء اللہ، رانا تنویر عبدالرحمن کانجو اور احسن اقبال نے اس کیلئے نا صرف قرارداد جمع کروا دی ہے بلکہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لئے ریکوزیشن بھی جمع کراوادی ہے ۔ اس قرار دادپر91ارکان اسمبلی کے دستخط ہیں۔ ریکوزیشن درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیاہے کہ اقتصادی صورت حال مہنگائی میں اضافے اور روپے کی قدر میںکمی اور امن و امان کی بدترین صورت حال پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر ان امور پر بحث کی جائے۔ درحقیقت قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اصل مقصد صوبہ جنوبی پنجاب کے مطالبہ پر عوام کو سڑکوں پر لانا ہے۔ جبکہ دوسری جانب حکومتی سطح پر تحریک انصاف نے اپنے وعدہ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار صوبہ جنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ کے زبانی اعلان کے سوا کچھ نہیں کر سکے ۔ نئے صوبوں کا قیام پنجاب اسمبلی کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے مسلم لیگ(ن) فروری اور مارچ میں صوبہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے نام پر تحریک چلائے گی اس میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ ضروری نہیں۔ اپوزیشن نے حکومت مخالف زمین تیار کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ لہٰذا فروری مارچ کا مہینہ سیاسی طور پر گرم ہو گا ۔ تحریک انصاف بھی اس کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیںیہ اس کا اپنا مطالبہ رہاہے ۔ عمران خان اس وقت جنوبی پنجاب صوبے کے قیام پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور صوبہ کے قیام کے لئے جو لوازمات ضروری ہیں ان کی طرف کوئی پیش قدمی نظر نہیں آتی ۔
مجموعی صورت حال میںحکمران پارٹی اور حزب اختلاف میں دور دور تک سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی ۔الزام تراشی اور دشنام تراشی کا جو فری سٹائل میچ جاری ہے اس کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت ایک دیانت دار اور ایماندار شخص کے طور پر عوام میں اپنا مقام رکھتی ہے لیکن اس عہد دشنام تراشی اور الزام تراشی نے ان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خاں کے بارے میں اپوزیشن خصوصی طور پر مسلم لیگ(ن) نے جس سکینڈل کو اپنی سیاست کا اول و آخر نکتہ قرار دے دیا ہے۔ اس سے عمران خان کی شخصیت اس قدر متاثر ہوئی ہے کہ لوگ برملا یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان علیمہ خاں کے پارٹنر ہیں اور حیران کن بات ہے کہ عمران خان پراسرار طور پر خاموشی کی چادر لپیٹے ہوئے ہیں۔ موجودہ سیاسی محاذ آرائی نے عوام میں جو بے چینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے اس سے بہت سے خدشات اور سوالات جنم لے رہے ہیں۔ پاکستان میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دو ہی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو اقتدار میں رہی ہیں ۔ ماضی میںاگر ان کی حکومتیں اپنی مقررہ مدت اختیار پوری نہ کر سکیں اور کرپشن کے الزامات میں اقتدار سے محروم ہوتی رہیں تو جس الزام کے تحت حکومتیں محروم اقتدار ہوتی رہیں اس کی افسانے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں۔ اب لوگ اس انتظار میں ہیں کہ ماضی میں دو تین سال کے بعد ہی تخت اقتدار چھینا جاتا تھا۔ اب عمران خان جو اپنی مدت اقتدار پوری کرتے نظر نہیں آتے۔ گو وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے جو منی بجٹ اصلاحات پیکج کے نام پر پیش کیا ہے آئینی طور پر بجٹ چاہے منی ہو یا قومی، اس کی منظوری قومی اسمبلی سے حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہ تو آئینی اور قانونی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت پیکج پیش کرتی ہے تو اس کی منظوری قومی اسمبلی سے حاصل کرنا حکومت کی آئینی اور قانونی ذمہ دار ہے یا نہیں لیکن اس پیکج سے عمران خان کی حکومت کے پاؤں تلے سے جو زمین کھسک رہی تھی اب عمران خان اپنے پاؤں پر کھڑے ضرور نظر آتے ہیں جبکہ عمران خان اپنا تمام زور پنجاب اور سندھ کے تاجروں کو اپنی طرف مبذول کرنے میں ناکام رہے ہیں اور چھوٹے بڑے تاجروں نے میاں محمد نوازشریف کے سزایافتہ ہونے اور نااہل ہونے کے باوجود میاں محمد نوازشریف کے کیمپ کو نہیں چھوڑا۔ گویا تاجر برادری میاں محمد نوازشریف کی ایسی طاقتور فورس تھی جس نے میاں محمد نوازشریف کو کمزور ہونے کا احساس تک پیدا نہیں ہونے دیا لیکن اس اصلاحاتی پیکج نے اس فورس پر ایسی فولادی ضرب لگائی ہے کہ تاجر برادری اب دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور مسلم لیگ(ن) کی سیاسی قوت ویسی نہیں رہی جیسی انتخابات سے قبل تھی۔ عمران خان کو یہ پنجاب میں پہلی کامیابی ہی نہیں ملی بلکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی بھی ہو گئی۔ یہ امر بھی اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت رکھتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کبھی اپنی اصل شکل میں آئی ہی نہیں۔ ہمارے ہاں تو نظام میں بہت خرابیاں ہیں۔ عمران خان خود اقرار کرتے ہیں اور غیرملکی دوروں میں بھی اعتراف کرتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ عمران خان اگر ملک کا نظام بہتر کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں یہ نظام تبدیلی کرنا ہو گا کیونکہ یہ نظام ظلم ہے اور ظلم کے نظام میں انصاف نہیں ہو سکتا، فلاح نہیں مل سکتی۔ اس نظام میں لوگ مرتے رہیں گے اور لڑتے رہیں گے۔ اس سے بچاؤ کا راستہ نظام کی تبدیلی ہے لیکن نظام کی تبدیلی پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی میں قانون سازی کے بغیر ممکن نہیں اور اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں اعلانیہ کہہ رہی ہیں کہ اسمبلی نہیں چلنے دیں گے اور عمران خان کے پاس اسمبلی میں قانون سازی کی طاقت نہیں، معمولی اکثریت اور یہ خوف عمران خان کے سر پر سوار ہے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن