عمران خان کی پنشن پر اعتراض اور حقیقت!
چند روز قبل روزنامہ نوائے وقت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے پنشنرز کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی۔ کرکٹ بورڈ کے پنشنرز میں انیس سو بانوے عالمی کپ کے فاتح کپتان عمران خان کا نام بھی شامل تھا۔ پی سی بی نے پلیئرز ویلفیئر پالیسی کے تحت پنشن میں بیس فیصد اضافہ کیا ہے یوں پینتالیس ہزار ماہانہ پنشن حاصل کرنیوالے سابق کرکٹرز کی پنشن میں نو ہزار ماہانہ اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان اب وزیراعظم ہیں۔ انہیں لوگ سیاسی طور پر پسند بھی کرتے ہیں ناپسند بھی کرتے ہیں۔ کرکٹرز میں بھی ایک حلقہ ایسا ضرور ہے جو انہیں ناپسند کرتا ہے لیکن حریف سیاستدانوں کی طرح مخالف کرکٹرز سرعام اسکا اظہار نہیں کرتے۔
اس خبر کے حوالے سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ حالات حاضرہ کے پروگرامز کرنیوالوں نے بھی اس خبر پر بھی اپنے انداز میں خیالات کا اظہار کیا ہے۔ پنشنرز کی فہرست میں کئی نامی گرامی کرکٹرز شامل ہیں لیکن موضوع بحث عمران خان ہی ہیں۔ بڑی پنشن پر سابق کپتان پر تنقید ہوئی ہے۔
گگلی ماسٹر عبدالقادر کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کرکٹرز کی وجہ سے ہے کرکٹ بورڈ انتظامیہ کی وجہ سے ہم نہیں ہیں، ہماری وجہ سے وہ لوگ موج کرتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کرکٹ بورڈ کے پاس جو کچھ ہے وہ کرکٹرز کی وجہ سے ہے اور اس پر سبب سے پہلا حق کرکٹرز کا ہے۔ اس بنیادی نقطے میں وزن ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کرکٹرز سب سے اہم ہیں اور آج ملک میں اگر کرکٹ مقبول ترین کھیل اور پاکستان کرکٹ بورڈ امیر ترین ادارہ ہے تو یہ ان کرکٹرز کی محنت اور شاندار کارکردگی کی وجہ سے ہی ہے۔ پاکستان کی پہلی ٹیسٹ ٹیم کے عظیم کھلاڑیوں حنیف محمد، فضل محمود، امتیاز احمد، نذر محمد، اے ایچ کاردار دیگر کھلاڑیوں اور بعد میں آنیوالوں نے اس کھیل کو مقبول بنایا۔ ہماری تاریخ کے کامیاب کرکٹرز کا کردار کھیل کی مقبولیت میں بہت اہم ہے اور ان اہم کھلاڑیوں میں عمران خان سب سے اہم اور نمایاں نظر آتے ہیں۔انہیں کھیل کے میدانوں کو خیر باد کہے ستائیس برس ہونے کو ہیں لیکن انکا سحر آج بھی قائم ہے۔ وہ نوجوان کرکٹرز کے لیے ایک تحریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں وہ دنیائے کرکٹ کے بڑے کرکٹر اور کپتان ہیں انکی وجہ سے بھی دنیا بھر میں کھیل مقبول ہوا۔ انہوں نے پاکستان کرکٹ میں کئی نئی چیزیں متعارف کروائیں۔ کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں، کئی تاریخ ساز کرکٹرز کی تربیت کی،ملک کے لیے پہلا عالمی کپ جیتا، ریٹائرمنٹ کے بعد اور ساٹھ سال کی مقررہ عمر تک پہنچنے کے بعد اگر پاکستان کرکٹ بورڈ انہیں پنشن جاری کرتا ہے تو یہ عمران خان پر کوئی احسان نہیں نہ ہی ان تمام اڑتالیس کرکٹرز پر کوئی احسان ہے بلکہ جو انکی خدمات ہیں انہیں اس سے بہت زیادہ بھی ماہانہ ادا کیا جائے تو وہ بہت کم ہو گا۔ کیا عبدالقادر، آصف اقبال، مشتاق محمد اور ظہیر عباس کی خدمات کا معاوضہ ادا کیا جا سکتا ہے؟
عمران خان پر یہ بھی اعتراض اٹھایا گیا کہ وہ بہت مالدار ہیں انہیں کیا ضرورت ہے۔ کیا ملک میں بڑے بڑے اور اہم عہدوں سے ریٹائرڈ ہونے والے افراد پنشن حاصل نہیں کرتے، کیا ان کے پاس پیسوں کی کمی ہوتی ہے، کیا وہ پنشن کے بغیر مالی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں،یقیناً اکثریت کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔اسی پیمانے پر عمران خان کا کیس بھی دیکھا جانا چاہیے اگر وہ ملک کے لیے کرکٹ کھیلتے رہے،کھیل کے میدانوں سے رخصت ہونے کے بعد طے شدہ قوانین کے مطابق اگر وہ پنشن کے حقدار ہیں تو انہیں ملنی چاہیے۔ انکے سیاسی مخالفین اگر اس پر اعتراض کرتے ہیں تو پھر انہیں ملک کے تمام پنشنرز پر اعتراض کرنا چاہیے۔ ہدف صرف عمران خان کیوں، ویسے یہ سیاسی معاملہ ہے۔
مسئلہ کہاں ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ انتظامیہ اس معاملے کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرے تو غلط ہے جیسا کہ عبدالقادر کی پنشن صرف اس لیے روک دی گئی کہ انہوں نے بورڈ پر تنقید کی، ایسی صورتحال کا سامنا سرفراز نواز کو بھی کرنا پڑا،پھر بعض کرکٹرز کو مشکل حالات کا سامنا رہتا ہے لیکن انکی کوئی مضبوط آواز نہیں ہوتی اور وہ اس ویلفئیر پالیسی سے محروم رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جتنا ممکن ہو سکے ضرورت مند کرکٹرز کی مدد کی جائے اور اس کے لیے کسی کا ٹیسٹ یا انٹرنیشنل کرکٹر ہونے کو معیار نہ بنایا جائے اس میں فرسٹ کلاس کرکٹرز کو بھی شامل کیا جائے۔ بورڈ کے پرانے ملازمین کی بھی مدد کی جائے، جب اعلی افسران گھر بنا سکتے ہیں نئی گاڑیاں لے سکتے ہیں تو ملکی کرکٹ کی خدمت کرنیوالوں کو بھی جائز حق دینے میں کوئی حرج نہیں۔ عمران خان ملکی کرکٹ کا روشن ستارہ ہیں۔ وہ اور انکے ساتھی کرکٹرز نے کھیل کو مقبول عام بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔انکی خدمات ماہانہ پنشن سے کہیں زیادہ ہیں اس لیے اس معاملہ کو سیاسی رنگ دینا ناانصافی ہے۔ کرکٹ بورڈ بھی اپنی سطح پر ایسی ناانصافی سے بچے تاکہ کرکٹرز میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔