قومی ہاکی تباہی کے دھانے پر
مکرمی! پاکستان کی ہاکی ٹیم جس کے پاس دنیا کے ٹاپ کے ٹائٹل، ورلڈ کپ، اولمپکس، چیمپئنز ٹرافی، ایشین گیمز سبھی تھے ۔دنیائے ہاکی میں ہمارا نام تھا۔ بڑی بڑی ٹیمیں ہم سے کھیل کر ڈی کے قریب بھی نہیں آتی تھیں۔ سمیع اللہ، کلیم اللہ، منظور جونیئر، حنیف خان اصلاح الدین، اسد ملک ، اختر رسول، انوار احمد خاں، حسن سردار ، افضل منا، خواجہ جنید،فضل الرحمٰن ، سعید انور ، منصور احمد، شاہد علی خاں ، شہباز سینئر وغیرہ ایسے کھلاڑی تھے جو مخالف ٹیم کے دفاع کو پاش پاش کر دیتے تھے۔ دنیا کی بہت سی ٹیموں کو پاکستان نے ہاکی سکھائی اور وہی ٹیمیں آج ہمارے لئے درد سر ہیں۔ آج ہم بنگلہ دیش چین، جنوبی افریقہ سے بمشکل جیتتے ہیں۔ قومی ٹیم کے زوال کی وجہ فیڈریشن میں سیاست، گروہ بندی، ہاکی کلبوں کا بند ہو جانا گرائونڈ کی کمیابی، ٹورنامنٹس کا نہ ہونا، جعلی انتخابات کے ذریعے فیڈریشن میں جمع رہنا، آڈٹ کا نہ ہونا اور پیسے کی خرد برد ہونا ہے۔ آج سے 20 برس پہلے تک صرف لاہور میںآٹھ دس ٹورنامنٹس ہوتے تھے۔ انور علی شیلڈ، جعفر میموریل، جم خانہ لیگ، پنجاب یونیورسٹی گرائونڈ میں ٹورنامنٹ ہونا، پھرلاہور، کراچی، سیالکوٹ ، گوجرہ، شیخوپورہ، فیصل آباد، بہاولپور ہاکی کی نرسیاں ہونا، ایم اے او کالج ، گورنمنٹ کالج، اسلامیہ کالج ہاکی کی نرسیاں ہونا، اقبال بالی، اسلم روڈا، شیخ رمضان، چاچا منیر ڈار، بہائو الدین کرمانی، بازید خاں برکی، عمر خاں برکی ، افضل منا، توقیر ڈار جیسے ہاکی سے لگن والے لوگ کہاں گئے پھر بھی پاکستان میں ہاکی کو توقیر ڈار نے اکیڈمی بنا کر زندہ رکھا ہوا ہے۔ قومی ہاکی ٹیم حکام بالا کی نظر کرم اور کسی بھی حکم کی منتظر ہے۔ (طاہر شاہ۔ دھرمپورہ لاہور)