علیم خان کا 9 روزہ جسمانی ریمانڈ‘ پچھلی وزارت میں غیر قانونی اثاثے بنائے : پراسیکیوٹر چیئرمین نیب خط لکھنے پر ناراض تھے : پی ٹی آئی رہنما
لاہور (اپنے نامہ نگار سے+ ایجنسیاں) احتساب عدالت نے پی ٹی آئی رہنما عبدالعلیم خان کے 9 روزہ جسمانی ریمانڈ کا حکم دیتے ہوئے انہیں 9 روزہ جسمانی ریمانڈ پر 15فروری تک نیب کے حوالے کردیا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے علیم خان کے 15روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔ پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظات کیے گئے۔ عدالت میں پی ٹی آئی کے کارکن جمع ہو گئے۔ عدالت کے باہر پولیس اور کارکن آمنے سامنے آئے تو حالات خراب ہونے کا ماحول پیدا ہو گیا۔ کارکنوں نے شدید نعرے بازی کی۔ عدالت کے اندر کارکنوں کی نعرے بازی پر جج برہم ہو گئے۔ نیب پراسیکیوٹر وارث جنجوعہ نے عدالت کو بتایاکہ عبدالعلیم خان نے پارک ویوکوآپریٹو ہاو¿سنگ سوسائٹی کے سیکرٹری اور ایم پی اے کے طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور ان کے پاس 2003 سے 2005 تک مختلف ذرائع سے 71 ملین کی رقم آئی۔ عبدالعلیم خان کے وکیل نے بتایا کہ نیب ہمیں جب بلاتا رہا ہم جاتے رہے، 2007 تک علیم خان وزیر رہے جبکہ جو بانڈ نکلے ان کا ریکارڈ بھی نیب کو دیدیا، جو رقم والدین کی طرف سے ملی اس کا ریکارڈ بھی نیب کے پاس ہے۔ ہم سارا ریکارڈ نیب کو دے چکے ہیں۔ لہٰذا ریمانڈ نہیں بنتا۔ علیم خان نے عدالت میں انکشاف کیا کہ 2018 میں ایم پی اے بنا، اس کے بعد ان کیخلاف کارروائی تیز کردی گئی اور میں نے خود ریکارڈ نیب کو دیا۔ نیب نے ریکارڈ جمع نہیں کیا۔ گرفتاری سے پہلے انہیں کہا گیا کہ آپ کے وکیل نے بڑا سخت لیٹر لکھا ہے جس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔ اس خط کا مجھے کوئی علم نہیں۔ گرفتاری سے قبل مجھے جو سوالات دیئے جا رہے تھے انکا جواب بھی دے چکا ہوں۔ فاضل عدالت نے فریقین کے تمام دلائل سننے کے بعد نیب کی پندرہ روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے علیم خان کا 9 روزہ جسمانی ریمانڈ دیدیا۔ واضح رہے سینئر صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما علیم خان کو نیب نے بدھ کے روز نیب کے آفس میں پیشی کے دوران گرفتار کرلیا تھا۔ جس کے بعد علیم خان نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ نیب لاہور کی جانب سے گرفتاری کی وجوہات کے مطابق عبدالعلیم خان کی جانب سے مبینہ طور پر پارک ویو کوآپریٹو ہاﺅسنگ سوسائٹی کے بطور سیکرٹری اور ممبر صوبائی اسمبلی کے طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جس کی بدولت پاکستان و بیرون ممالک میں مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات بنائے۔ ملزم عبدالعلیم خان نے ریئل اسٹیٹ بزنس کا آغاز کرتے ہوئے کروڑوں روپے مذکورہ بزنس میں انویسٹ کیے۔ علاوہ ازیں ملزم کی جانب سے لاہور اور مضافات میں اپنی کمپنی میسرز اے اینڈ اے پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام مبینہ طور پر 900کنال زمین خریدی جبکہ 600کنال مزید زمین کی خریداری کیلئے بیعانہ کی رقم بھی ادا کی گئی تاہم ملزم عبدالعلیم خان مذکورہ زمین کی خریداری کیلئے موجودہ وسائل کے حوالے سے تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے۔ ملزم عبدالعلیم خان نے مبینہ طور پر ملک میں موجود اثاثہ جات کے علاوہ 2005 اور 2006ءکے دوران متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں متعدد آف شور کمپنیاں بھی قائم کیں جن میں ملزم کے نام موجودہ اثاثہ جات سے کہیں زیادہ اثاثے خریدے گئے جن کے حوالے سے نیب افسران تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم ملزم کی جانب سے ریکارڈ میں مبینہ ردو بدل کے پیش نظر ملزم کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے تاہم دوران گرفتاری ملزم کے اپنے اور دیگر بے نامی اثاثہ جات کے حوالے سے تحقیقات خفیہ رکھی جارہی ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر وارث علی جنجوعہ روسٹرم پر پہنچ گئے تاہم انہیں شدید رش کی وجہ سے روسٹرم پر آنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ عبدالعلیم خان کا 2002ءمیں ایک کروڑ 90لاکھ کا پرائز بانڈ نکلا۔ 109ملین باہر سے ان کے والد کو آمدن آئی۔ پرائز بانڈ کو ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن جو پیسے باہر سے آئے اس کے متعلق یہ جواب نہیں دے سکے
کہ پیسے کس نے بھیجے۔ لہٰذا ہم انہیں نہیں مانتے۔ انہوں نے پچھلی وزارت کے دوران غیرقانونی طور پر یہ اثاثے بنائے۔ 2003ءمیں ایم پی اے منتخب ہوئے اس دوران انہوں نے 900 کنال پراپرٹی بنائی۔ 2003ءمیں عبدالعلیم خان نے ڈیڑھ کروڑ روپے کا گھر خریدا۔ 2005ءمیں عبدالعلیم خان نے اپنی بیوی کے نام کمپنی بنائی۔ کمپنی میں بھاری رقم کی سرمایہ کاری کی۔ ان کے اثاثہ جات ان کی آمدن سے بہت زیادہ ہیں۔ 2003ءمیں انہوں نے 18 ملین اور 2017ءمیں 871 ملین کے اثاثہ جات ظاہر کئے۔ انکوائری کے دوران اثاثوں بارے مطمئن نہیں کر سکے۔ علیم خان نے کہا کہ کمپنی کے 878 ملین کے اثاثہ جات ڈیکلیئر کیے ہیں، ان کے سیاست میں آنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ حکومتی رقم سے سب کچھ بنایا۔ مجھے بتایا گیا کہ میری جانب سے ایک خط نیب کو گیا جس پر چیئرمین نیب ناراض ہیں۔ کیا ناراضی پر گرفتار کیا جاتا ہے؟۔ علاوہ ازیں علیم خان نے اپنا مقدمہ لڑنے کیلئے شہباز شریف کے وکیل کی خدمات حاصل کرلیں۔ امجد پرویز آشیانہ سکینڈل میں شہباز شریف کے بھی وکیل ہیں، پانامہ کیس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما عبدالعلیم خان کی گرفتاری پر نیب اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ یہ م¶قف بے بنیاد ہے کہ عبدالعلیم خان کو چیئرمین نیب کو خط لکھنے پر چیئرمین کی ناراضی پر گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری قانون، میرٹ اور شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی۔ عبدالعلیم خان کی احتساب عدالت میں پیشی پر مناسب حفاظتی اقدامات نہ کرنے پر چار افسران کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے گئے۔ احتساب عدالت کے جج نجم الحسن نے متعلقہ ڈی ایس پی سکیورٹی اور نیب کے ونگ ڈائریکٹر کو آج ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ عدالت نے عبدالعلیم خان کیس کے نیب تفتیشی مقدمہ اور نیب کیس افسر کو بھی شوکاز کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کر لیا۔ افسران پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر عبدالعلیم خان کو لانے کے لئے ججز کمپاﺅنڈ استعمال کیا۔ مناسب سکیورٹی انتظامات نہ کرنے پر کارکنوں کی بڑی تعداد کمرہ عدالت اور ججز کمپاﺅنڈ میں داخل ہو گئی۔ ملزم کی آمد کے موقع پر ججز کمپاﺅنڈ میں گل پاشی کی گئی۔ احاطہ عدالت، کمرہ عدالت اور ججز کمپاﺅنڈ میں کارکنوں نے نعرے بازی کی گئی۔ بے قابو ہجوم کے باعث ججز کمپاﺅنڈ میں گملے بھی ٹوٹے اور ایک دروازے کو بھی نقصان پہنچا۔ عدالت نے متعلقہ ایس پی کو بھی پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔
علیم خان ریمانڈ