• news
  • image

کشمیریکجہتی کانفرنس اور موجودہ سیاسی دنگل

گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں کشمیر پر مشاورتی کانفرنس بلائی اس میں پاکستان کے تقریباً تمام بڑی اور قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ مولانا فضل الرحمن 10سال کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں‘ اس دوران انہوں نے ایسی ایک بھی کانفرنس بلانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ دیر آئے درست آئے کے مصداق انھوں نے کشمیر پر ایک مشاورتی کانفرنس بلائی‘ اس میں بھی وہ سیاست کرتے نظر آئے۔ تحریک انصاف جو گذشتہ انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کے سامنے مولانا نے اس کانفرنس میں اسے بلانا مناسب نہ سمجھا۔ اس میں بڑے بڑے مقررین نے مسئلہ کشمیر پر بہت عمدہ باتیں کیں۔ ان میں صدر آزاد کشمیر‘ وزیراعظم کے علاوہ راجہ ظفر الحق اور بڑے بڑے سیاسی اور مذہبی اکابرین نے خطاب کیا۔ آصف علی زرداری کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے اوپر بات ضرور کی لیکن وہ اس کانفرنس میں جو خالصتاً کشمیر پر تھی ‘اس میں بھی وہ سیاست کو گھسیٹ لائے۔یہ وہی کانفرنس ہے جس کے اندر آصف علی زرداری نے صحافیوں سے کہا کہ آپ حکومت گرانے میں ہمارا ساتھ دیں‘ میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ وہ صحافیوں کا کیا ساتھ دے سکتے ہیں‘ انکے مائنڈ میں کچھ ہوگا تو بہرحال اس کانفرنس میں کشمیر کے علاوہ کسی اور چیز کا ذکر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ کریڈٹ ہمیشہ پیپلزپارٹی کے پاس رہے گا کہ اس نے کشمیر کاز کیلئے سب سے زیادہ جدوجہد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے بارے میں ہی کہا تھا کہ ہم اس کو آزاد کر اکے دم لیں گے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو ہیں اور اس پروگرام کی بنیاد میں دراصل مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور پھر بینظیربھٹو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ کمیٹڈ رہی ہیں۔ یوم یکجہتی کے حوالے سے کریڈٹ جماعت اسلامی بجا طور پر لے رہی ہے لیکن پیپلزپارٹی کو بھی اس کریڈٹ سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ آصف علی زرداری کو اسکا خیال ہونا چاہیے جو خود کو پیپلز پارٹی کا جانشین ثابت اور ظاہر کر چکے ہیں۔ جو کانفرنس مولانا فضل الرحمن نے بلائی وہ اگر آصف علی زرداری کشمیر کاز کیلئے پیپلز پارٹی کی جدوجہد کو اجاگر کرنے کیلئے بلاتے تو زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔
اپنی طبع تسکین کیلئے کچھ لوگ اذیت پسندی میں اس قدر آگے چلے جاتے ہیں۔ سی ٹی ڈی کا ایک نوجوان دو دو لاکھ روپے دے کر بھرتی ہوا۔ وہ بتا رہا تھا کہ ایک ناکے پر گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا‘ گاڑی نہ روکی‘ دوسرے پر بھی نہیں کی‘ اسکے بعد گاڑی کو دہشت گردی میں استعمال کرنیوالے دہشت گردوں کی موجودگی میں سی ٹی ڈی کی نظر میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا ۔ اگلے ناکے پر الرٹ کر دیا گیا‘ سنائپر سے کہا گیا کہ وہ اشارہ ملتے ہی ٹائروں کو برسٹ کر دے۔ جب آگے بھی اشارہ ملنے پر بھی گاڑی نہ رکی تو اسے فائر کا آرڈر دیا گیا۔ سنائپر نے ٹائروں کا ایسا نشانہ لیا کہ گولی نوجوان کی گردن سے ہوتی ہوئی ماتھے پر جانکلی۔ یہ سنائپر بھی نہ جانے کتنے لاکھ دے کر بھرتی کیا گیا ہو گا۔
جب ہم اذیت پسندی اور بے رحمی کی بات کرتے ہیں تو معاشرے سے زیادہ یہ ہماری سیاست میں رچی بسی ہوئی ہے۔علیم خان کو گرفتار کیا گیا مسلم لیگ نون کہتی ہے ہمیں انصاف مل گیا۔ میاں شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں جو شیخ رشید کو ایک آنکھ نہیں بھاتے سپیکر نے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تو یہ کبھی سپیکر کے گلے پڑتے ہیں کبھی عمران خان کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور انکی حیثیت کو غیرموثر بنانے کیلئے اکاؤنٹس کیلئے سب سے زیادہ تکلیف شیخ رشید کو ہے۔پروڈکشن آرڈر بھی سیاست کی زد میں رہتے ہیں اب علیم خان کو بھی انہیں آرڈرز کے ذریعے اسمبلی میں آنا ہوگا اسی اسمبلی میں سپیکر چودھری پرویزالٰہی نے پروڈکشن آرڈر کا بل منظور کروایا ذرا سوچیئے کہ اگر ایسا بل پاس کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کا فائدہ علیم خان کو ہونا تھا تو کیا مسلم لیگ نون اسی جوش و خروش سے حکومت کا ساتھ دیتی ہے جس طرح خواجہ سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈر کیلئے قانون سازی میں جوش و ولولہ دکھایا گیا تھا۔ پروڈکشن آرڈر سے یاد آیا کہ آصف علی زرداری بھی سینٹ میں پروڈکشن آرڈر کے دور کی پراڈکٹ ہیں۔ شیخ رشید میاں نواز شریف اور شہباز شریف پر پلٹ کے جھپٹتے ہیں اس کا جواب ان بڑے لیڈروں کی طرف سے تو نہیں دیا جاتا لیکن ان لیڈروں کے شیدائی اور فدائی ضرور جواب دیتے ہیں یہ فریضہ زیادہ تر رانا ثناء اللہ نے اپنے سر لے رکھا ہے جب شیخ رشید سے انکے ترکی بترکی جواب پر رد عمل دینے کی بات کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر کوئی جواب نہیں دیتے یہ تو ایک بدبودار آدمی ہے یہ میرا لیول نہیں ہے رانا ثناء اللہ ہوں ،طلال چوہدری یاعابد شیر علی گل وگلزاراور سدا بہار قسم کی شخصیات ہیں وہ باتیں ضرور بدبو دار ہونگی جو کوئی بھی شریف شخص اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر سننا گوارا نہیں کرسکتا۔کسی نے ان تینوں کی ایک ویڈیو بنا کر شئیر کر رکھی ہے جس کو دیکھ کرواقعی ان کی باتوں سے بدبو آتی ہے اگر کسی پی پی پی اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کی ایسی ویڈیو کسی کے پاس ہے تو وہ ضرور شئیر کرے۔باقی بھونکے تو ہر پارٹی میں ہونے ہیں۔جو ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔
آج احتساب کا بھی بگل کوئی زیادہ ہی غلام دونگی سے بج رہا ہے علیم خان پکڑے گئے ہیں تو شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی گرفتاری کے حوالے سے بھی دنیا ہو رہی ہے کوئی بھی کرپٹ شخص معافی کے قابل نہیں ہے لیکن محض بیلنس کیلئے کسی کو گرفتار کرنا اسکے ساتھ زیادتی اور اسکی پاداش میں دوسروں کو زیر حراست لینا بھی کوئی خوش کن عمل نہیں ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن