میرے والد ، میرا قبلہ و کعبہ …اللہ حافظ
جمعہ یکم فروری عام سا دن تھا،میں حسب معمول گھر سے نکلا اور ہمشیرہ کے گھر کی جانب چل پڑا جہاں میرے والدین ان دنوں عیسی غازی تربیلا ڈیم سے آکر مقیم تھے،والد صاحب سید ذالفقار علی جعفری جو اپنے شاعرانہ تخلص کی مناسبت سے سیدعمار جعفری کے نام سے بھی معروف ہیں ،وہ بہن بھائیوں کے اصرار پر اسلام آباد آئے تھے تاکہ انکی آنکھوں میں الرجی کی شکائت پر کسی ماہر ڈاکٹر سے مشاورت کرلی جائے ۔ ہمشیرہ کے گھر داخل ہو اتو والدین لان میں بیٹھے نظر آئے،کئی روز کی بارش کے بعد دھوپ نکلی تھی جو بہت بھلی لگ رہی تھی ، میں بھی اپنے والدین کے پاس جا بیٹھ گیا اور روز مرہ کی گفتگو ہوئی،والد صاحب نے ایک بار پھر اصرار کیا کہ اب عیسی غازی واپس جانا چاہتے ہیں کیونکہ آنکھوں اور پائوں کے زخم کا علاج ہو گیا ہے ، ابھی انھیں بہت سے کام کرنے ہیں ،خاص طور پر اپنی یاد داشتوں پر مشتمل زیر طبع چھٹی کتاب کیلئے مزید مواد مہیا کرنا ہے ،جسکے بارے میں ناشر کا پیغام آیا ہے کہ کہ مزید صفحات بڑھانے کی ضرورت ہے ، اس وقت انہوں نے سیاسی حالات پر کچھ سوالات کئے،میں نے اپنی سمجھ کیمطابق جوابات دئے،کچھ گھریلو باتیں ہوئیں،اسکے بعد اجازت طلب کی اور کہا کہ اب اگلے روز ملاقات ہو گی اور دفتر کی جانب چل دیا ، مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ میری آخری ملاقات ہے اور وہ آئندہ 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اس سفر پر چلے جائینگے جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا ہے ، وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ہم ان کی تدفین کر چکے، وہ جو ہمیشہ دعا کیلئے ہاتھ بلند رکھا کرتے تھے آج ان کیلئے دل سے دعائیں نکل رہی ہیں، یقین ہے کہ والد محترم نے جس ڈھنگ سے زندگی گزاری ، انسان دوستی ، اصول پسندی ، اپنے فرض سے وفاداری ،علم سے محبت،درگذر،رواداری اوررزق حلال پر قناعت کو جاری رکھا وہ ان کی بخشش کا سامان ہے۔اب انکی دی ہوئی تربیت راہنمائی کریگی، اس وقت میرے سامنے انکی قومی نظموں پر مشتمل کتاب ’’ پانی پر لکیر‘‘ پڑی ہے ،2009ء میں اس کتاب کانسخہ مجھے تحفہ میں دیتے ہوئے والد گرامی جناب سید ذالفقار علی عمار جعفری نے کتاب کے خالی صفحے پرلکھا تھا ’’اپنے پیارے بیٹے عترت جعفری کے لئے ،اس تمنا کے ساتھ کہ اپنے علم میں ہر دم اضافہ جاری رکھو گے‘‘،اس کتاب میں قائد اعظم،شاعر مشرق،قائد عوام (ذالفقار علی بھٹو)،جناب مجید نظامی ؒ،کشمیر،دستور پاکستان اور دیگر قومی موضوعات پر نظمیں ہیں،کتاب پر انکے ہاتھ سے لکھی تحریر پہلے نصیحت تھی اب یہ وصیت کا درجہ پاگئی ہے ،انکی دیگر کتابوں میں حضرت عمار ابن یاسرؓ کی سوانح ’’الطیب المطیب‘ ‘اور سیرت طیبہ پرمضامین پرمشتمل کتاب’’اجالوں کا سفیر‘‘ شامل ہے ،یہ تمام مضامین ہفت روزہ’’ حرمت‘‘ میں چھپے تھے، بعد ازاں کتابی شکل میں شائع ہوئے،ان کی چوتھی کتاب’’ہوا کے سر‘‘ ہے،جو رومانی نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے ، اور نعتیہ مجموعہ ’’ابابیل کے آنسو ہے ،یہ تمام کتابیں ’’کلاسیک ‘‘کی جانب سے شائع ہوئیں اور مقبول عام کا درجہ حاصل کیا ،ان کا ایک اوربہت اہم کارنامہ واپڈا ملازمین کیلئے پنشن کا حق تسلیم کرانا تھا اس سے ہزاروں ملازمین مستفید ہو رہے ہیں، والد گرامی (سید ذالفقار علی عمار جعفری ) نے واپڈا تربیلا ڈیم میں ملازمت کی تھی اور وہ 1995ء میںڈپٹی ڈائریکٹر مہمان داری و تعلقات عامہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ،ان کوتربیلا ڈیم سے محبت تھی،اس ڈیم کی جب پہلی اینٹ رکھی گئی تو والد محترم وہیں تھے،اس وقت سارا علاقہ دیہات اور جنگل پر مشتمل تھا ، تمام نقش انکی آنکھوں کے سامنے ابھرئے اور ایسے دل میں سمائے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ڈیم کی حدود کے پاس اپنا ذاتی گھر تعمیر کرایا تھا،کبھی میں نے ذکر کیاتھا کہ والد ایک بچے کی حیثیت سے اپنے والد یعنی میرے دادا سید کرار حسین اور خاندان کے ہمراہ تلون جالندھر سے ہجرت کر کے آئے تھے ،محنت سے تعلیم حاصل کی اور تربیلا ڈیم میں خدمات انجام دیتے رہے ۔ان کا دور اس لحاظ سے سنہری تھا کہ ملک میں آنیوالے تمام اہم مہمان جن میں صدور،وزراء اعظم،ملکی اور غیر ملکی سیاست دان تربیلا ڈیم آتے تھے، جنرل ایوب خان ،ذالفقار علی بھٹو،محترمہ بے نظیر بھٹو شہید،جناب نواز شریف،شہباز شریف،شہزادہ بندر بن عبدلعزیز،صدر سیکو طورے،سابق برطانوی وزیر اعظم جیمز کلیہان اور لا تعداد شخصیات تربیلا ڈیم کی وزٹ پر آئیں،ان میں سے بہت کو تو میں نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ، ،والد ان سب کے ہمراہ ہوا کرتے تھے، کالم کے آغاز میں زیر طبع کتاب کا ذکر کیا تھا ،یہ والد صاحب کی انھی شخصیات سے ملاقاتوں کے احوال پر مشتمل ہے۔وہ ایک قناعت پسند اور سیر چشم انسان تھے،تعصب سے بالا اور ملک وقوم کی محبت سے سرشار، 2فروری بروز ہفتہ خالق حقیقی سے جا ملے،آج میری والدہ محترمہ ، میرے بہن بھائی،اور دوست واحباب ان کی جدائی میں غم سے بے حال ہیں۔اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے ،احباب سے بھی دعا کی التماس ہے ، انکی وطن سے محبت کاذکر کیا تھا ،اس لئے انکی کتاب کے دیباچہ میں لکھی تحریر کو دوہرا کر بات کو ختم کرتا ہوں،جناب ذالفقار علی عمار جعفری نے لکھا’’یہ میری کتاب قومی نظموں کا مجموعہ ہے ،جس میں وطن کی تعمیر،مٹی کی عظمت اور اسکے حصول میں نسل انسانی اور جزبہ اسلامی کا ذکر۔اور میں خود ان سب قربانیوں کا چشم دید گواہ ہوں،مجھے آگ میں جلتے گھر، نیزوں پر لہراتے ہوئے سر ،لاشوں سے بھری گلیاں، بوٹوں سے روندی کلیاں جب نظر آتی ہیں تو اس قیمت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں جوہم نے ادا کی ،ہم نے پاکستان بنتے ہوئے دیکھا اور اس زندگی کے بھی امین ہیں ،جو اس آزاد وطن میں ہم گزار رہے ہیں ‘‘