ففتھ جنریشن وار کامقابلہ محب وطن نوجوان ہی کرسکتے ہیں ؟
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر آئی جس کی عبارت تھی "کس کس کا خیال ہے کہ پاکستان میں سکول اور کالج کی سطح پر تین مہینے کی فوجی ٹریننگ لازمی ہونی چاہیئے تاکہ نوجوانوں کو ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کیا جاسکے۔" تمام افراد نے اس بات سے اتفاق کیا ۔ ایک نوجوان (محمد بقاء اللہ) نے لکھا کہ پلے گروپ سے پی ایچ ڈی تک قرآن پاک ناظرہ مع ترجمہ اور فوجی تربیت تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ ہونی چاہیئے تاکہ بچے بڑے ہوکر صحیح العقیدہ مسلمان بننے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے بہترین محافظ بھی ثابت ہوں ۔سچ پوچھیں تو مجھے اس نوجوان کی بات پسند آئی کیونکہ نوجوان ہی کسی ملک کا سرمایہ اور طاقت ہواکرتے ہیں ‘ ملک دشمن طاقتیں کسی ملک کو تسخیر کرنے سے پہلے وہاں کے نوجوانوں بے حیائی ‘ لچر پن اور نشے کا شکار کرتی ہیں ‘ امریکہ ‘ بھارت اوراسرائیل بھی مسلمان ممالک کیخلاف ایسے ہی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔اس لیے نوجوانوں کو قرآن کی مع ترجمہ تعلیم اور اوائل جوانی میں ہی فوجی ٹریننگ دینا اچھا اقدام ہے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت چاروں اطراف سے پاکستان دشمنوں میں گھیر چکا ہے ‘ بھارت تو ہمارا ازلی دشمن ہے ہی ‘ جس کی دشمنی کے مظاہر ے 1965ء ‘ 1971ء کی پاک بھارت جنگوںمیں جابجا دیکھے جاسکتے ہیں ‘ اسی مکار دشمن نے سازشوں کے جال بچھاکر نوجوان محب وطن بنگالی نوجوانوں کو پہلے متنفرق کیا پھرانہیں اسلحہ دیکر پاک فوج کے مقابل لاکھڑ ا کیا۔ اگر بنگالی نوجوان مکتی باہنی کا حصہ نہ بنتے تو قیامت تک مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ بلوچستان اور کراچی میں بدامنی پھیلانے میں بھی بھارت اور بھارت نواز افغان پیش پیش ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسی ‘ افغان خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ہزار بار کوششیں ہوچکیں جنہیں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کرناکام بنایا۔ کچھ ملک دشمن عناصر ہمارے درمیان اب بھی موجود ہیں جو وقتا فوقتا پاکستان سے غداری اورافغانستان سے یاری کا اظہار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔سرحدی گاندھی نے تو پاکستان کی سرزمین میںدفن ہونا بھی گوارا نہ کیا اور کابل میں دفن ہیں ۔ہمارا تیسرا ہمسایہ ایران ہے جوپاک ایران سرحد کے آر پار تخریب کاروں کی آمد ورفت سارا سال جاری رہتی ہے کئی بار ایرانی فوج پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی بھی کرچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج کی جانب سے افغانستان کے ساتھ ساتھ ‘ ایرانی سرحد پر بھی خار دارتاریں لگانے کی حکمت عملی وضع کی جارہی ہے ۔ یہاں تک تو بات پاکستان کے محل وقوع کی تھی لیکن نہ جانے ملک دشمن عناصرکی کتنی لابیاں اندرون ملک کام کررہی ہیں جو اپنے غیر ملکی آقائوں کے اشاروں پر نہ صرف امن و امان کو خراب کرتی ہیں ‘ کبھی ریلوے لائن پر بم دھماکے ‘تو کبھی بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائنوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے ‘ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بطور خاص بارودی سرنگوں کے ایک ایسے جال بچھے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے کتنے ہی فوجی افسر اور جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں ۔ اغوا کاری ‘ بھتہ خوری ‘ چوری سینہ زوری ‘ ڈاکہ زنی ‘ جنسی جرائم ‘ ملکی قوانین کی خلاف ورزی ‘ بجلی گیس کی چوری اور رشوت خوری یہ وہ وبائیں ہیں جو ہماری رگوںمیں خون کی طرح دوڑ رہی ہیں حالانکہ اندرون ملک حالات کو بہتربنانے اور امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ہے لیکن اس محکمے میں افسروں کے انبار لگنے کے باوجود پولیس کو عوام دوست نہیں بنایا جاسکا ۔جوخوف کی علامت بن چکے ہیں۔میں سمجھتا ہوں یہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ناکامی ہے کہ آج چور ‘ ڈاکو اور بھتہ خور کھلے عام وارداتیں کرکے پیدل ہی فرار ہوجاتے ہیں اور بے گناہ شہریوں کو سرے عام مرغا بناکر چھتر مارنے کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ہماری پولس ‘ کیمروں میں محفوظ ہونے والی ویڈیو دیکھ کر بھی مجرموں تک نہیں پہنچ سکتی ۔امن و امان کی بحالی ہو ‘ زلزلے کی تباہ کاریاں ہوں ‘ وبائی امراض کی یلغارکو روکنامقصود ہو ‘ ڈی جی خان اور سندھ کے جنگلوں میں خطرناک مجرموں کی سرکوبی ہو ‘ قومی الیکشن کا پرامن انعقاد ہو ‘ مردم شمار ی کا معاملہ ہو ‘ سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران اپنے ہم وطنوں کی مدد کی فریضہ انجام دینا ہو ‘ آگ بجھانی ہو‘ حتی کہ ہر مشکل لمحات میں سول انتظامیہ ناکام دکھائی دیتی ہے اور باامر مجبوری فوج کو بلانا پڑتاہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت جیسے مکار دشمن سے مقابلہ بھی فوج کرے ‘ افغان سرحد کا دفاع بھی فوجی جوانوں اپنی جانوں پر کھیل کرکریں ‘ دہشت گردی کی جنگ بھی فوج ہی لڑے ‘ بلوچستان میں باغی عناصر کا قلع قمع بھی فوج ہی کرے ‘ کراچی میں امن کی بحالی اور جرائم پیشہ کے خاتمے کیلئے بھی حکومت‘ فوج کی جانب ہی دیکھتی ہے اگر یہ سب کچھ فوج نے ہی کرنا ہے تو پھر فوج کا بھرپور ساتھ دینے کیلئے ہماری نوجوان نسل کو بھی قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا نوجوان بہادر اور پرجوش ہوتے ہیں وہ ناممکن کو ممکن بنانا خوب جانتے ہیں‘وہ پہاڑوںکی بلندیوں‘ سمندر کی گہرائیوں اور زمین کی تہوں میں چھپے ہوئے دشمن کا خاتمہ بھی کرسکتے ہیں۔ ان کا جوش ‘ جذبہ اور ولولہ ایک عام فرد سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔