عاصمہ جہانگیر کردار سے زندہ ہیں، پہلی برسی پر ہائیکورٹ با ر میں تقریب
لاہور (وقائع نگار خصوصی) ہائیکورٹ بار میں سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی برسی پر تقریب میں شرکاءنے عاصمہ جہانگیر کوزبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ شرکاءنے کہا کہ عاصمہ جہانگیر اپنے کردار سے زندہ ہیں۔ جب تک انسانی بنیادی حقوق کی بات ہوتی رہے گی عاصمہ کو یاد رکھا جائے گا۔ تقریب میں عدالت عالیہ کے ججز اوروکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا عاصمہ جہانگیر کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یاد تو ان کو کیا جاتا ہے جو بھول جائے۔ وہ توکبھی بھولی ہی نہیں ہیں۔ بار کی قیادت، عدلیہ اور سیاستدان کے لیے عاصمہ جہانگیر کی شخصیت ایک اہم مثال ہے۔ سویڈن کی سفیر انگرڈ جوہانسن نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی خدمات نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لئے ہے۔ منزہ جہانگیر اور سلیمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کا خلا کوئی پر نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ہوتیں تو ماورائے عدالت ہونے والے قتل اور زیادتیوں پر آواز اٹھاتیں۔ ان کا دوسرا گھر ہائی کورٹ تھا۔ دیگر شرکاءنے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی ذات کا حسن ہے کہ تمام شعبہ زندگی کے نمائندے تقریب میں موجود ہیں۔ تمام پارٹیوں کی نمائندگی ہے۔ چھوٹے جسم کے ساتھ پہاڑوں سے بلند حوصلے رکھتی تھیں۔ جسٹس فیصل الزمان، جسٹس شاہد کریم ، جسٹس شہرام سرور اور جسٹس شمس محمود مرزا بھی تقریب میں موجود تھے۔ علاوہ ازیں عاصمہ جہانگیر کو بچھڑے ایک سال ہوگیا لیکن ان کی انسانی حقوق کے لیے جلائی شمع سے آج بھی قانون کے طالب علم سیراب ہورہے ہیں۔ پانچ فٹ قد، گندمی رنگ، ہاتھ میں جمہوریت کا جھنڈا، تن پر سفید شلوار قمیض کالا کوٹ، آواز میں گھن گرج کی مالک عاصمہ جہانگیر کی پیدائش 27 جنوری 1952 کو لاہور میں ہوئی۔ 1980 میں انہوں نے اپنی بہن حنا جیلانی اور دیگر خواتین کے ساتھ مل کر پاکستان کا پہلا خواتین پر مبنی وکالت کا ادارہ بھی شروع کیا۔ 1983 میں وہ دور تھا جب مارشل لاءدور میں عاصمہ جہانگیر نے کئی مظاہروں میں حصہ لیا اور 1983 میں لاہور کے مال روڈ پر وومن ایکشن فورم کے ساتھ حدود قوانین کے خلاف تاریخی مظاہرہ کیا۔
عاصمہ جہانگیر