پاکستان میں سالانہ 70 ملین کلو تمباکو پیدا ہوتا ہے
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) تمباکو کے شعبے میں ٹیکسوںکی وصولی میں کمی سے متعلق سینٹ کی خصوصی کمیٹی برائے تمباکو کے شعبہ میں ٹیکس میں کمی کا اجلاس سینیٹر کلثوم پروین کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ چیئرپرسن سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ تمباکو کے شعبہ میں آنے والی 60ارب کی کمی کا مسئلہ کمیٹی میں اٹھایا گیا جس کی بنیادی وجہ ایف بی آر کو بہتر پالیسی بنانے میں مدد کرنا ہے۔ممبر ایف بی آرعامر عتیق نے کمیٹی کو بتایا کہ ٹیکس میں کمی کی بہت بڑی وجہ تمباکو کی غیرقانونی فروخت ہے۔ پاکستان میں سالانہ 70ملین کلو تمباکو کی پیداوار ہوتی ہے۔ جس میں سے صرف 45فیصد تمباکو قانونی طور پر خریدا جاتا ہے۔ 15ملین کلوتمباکو مارکیٹ سے غائب ہو جاتا ہے۔ سینیٹر محمد اعظم سواتی نے کہا کہ جب تک ادارے کے اندر کے لوگ شامل نہ ہوں کوئی باہر سے ٹیکس چوری نہیں کر سکتا۔ ٹیکس چوری خاص طور پر تمباکو کی ٹیکس چوری پر سزائیں سخت کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ پالیسی ایسی بنائیں جس پر عملدرآمد بھی آسان ہو۔ممبر ایف بی آر نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ کاشت کاروں کے ساتھ مسلسل میٹنگز ہوئی ہیں ان کا بڑا مسئلہ خود تمباکو کو ایکسپورٹ کرنا ہے جبکہ یہ کام صرف مقامی تاجر کرتا ہے۔ آزاد کشمیر، فاٹا، پاٹا اور دوسرے ایسے علاقے جہاں قانون پر عمل درآمد کے مسائل ہیں وہاں تمباکو کی ٹیکس چوری بہت زیادہ ہے ان سب مسائل کے باوجود ادارہ وہاں مسلسل کاروائیاں اور ٹیکس وصولی کر رہا ہے۔ سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ تمباکو انڈسٹری میں سب سے اہم شراکت دار ایف بی آر ہے۔ ایس آر او نمبر1149 سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ تمباکو کی برآمدات کو نقصان ہوا۔ آزاد کشمیر سے آنے والا سگریٹ مقامی مارکیٹ کو خراب کر رہا ہے۔