پاکستان ایک صوفی ریاست بننے جا رہا ہے
میں نے محکمہ اوقاف کے ایک بڑے افسر اور لیڈر طاہر رضا بخاری کی طرف سے ان کے ایک کالم میں صوفی یونیورسٹی کے قیام کی خبر پڑھی اور سرشار ہو گیا۔ ایک تو خوشی یہ تھی کہ ایک بڑے سیاستدان چودھری پرویز الٰہی کے بعد ایک بڑے افسر کی طرف سے کالم نگاری کا آغاز ہوا اور اچھی خبریں ملیں۔ میں اپنے آپ کو چھوٹا سا مدنی سمجھتا ہوں البتہ صوفیوں کے قدموں کی خاک کو بھی بہت بڑا درجہ دیتا ہوں۔
جب عمران خان پاکپتن میں بابا فرید کے مزار کی سیڑھیوں پر ادب سے جھکے تو وہ خود بھی مجھے ایک صوفی لگے۔ پھر پاکپتن کی ایک بڑی درویش خاتون محترمہ بشریٰ بی بی کے ساتھ رشتہ بنایا۔ اخبارات میں پڑھا کہ وہ عمران کی زندگی میں داخل ہوئی ہیں۔ ایک بڑی درویش خاتون کیساتھ عمران خان کی شادی کی خبر بہت بڑی خوشخبری کی طرح تھی۔ پھر اس کے بعد عمران خان وزیراعظم پاکستان بنے۔ مجھے اچھا لگا۔ لوگوں نے اس کے لیے بھی محترمہ بشریٰ بی بی کی دعائوں کی اہمیت پر زور دیا۔
میں حکمرانوں کی رفاقت کو محبت کے کسی انداز میں نہیں لا سکتا۔ مگر کچھ لوگ حکمران بنتے نہیں بنوائے جاتے ہیں۔ عمران خان کے لیے پاکستان کے لوگوں کی کچھ امیدیں ہیں جو ابھی زندہ ہیں۔ اللہ کرے یہ امیدیں کبھی نہ مریں۔
سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان کے دورے سے عام لوگ بھی خوش ہوئے ہیں جنہوں نے نہ صرف ٹی وی چینل پر پاکستان میں ان کی موجودگی کو دیکھا، محسوس کیا اور خوش ہوئے۔ ان کی موجودگی ایک آسودگی کی طرح ہے۔ میں بھی انہی لوگوں میں شامل ہوں اور خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ کبھی ان دوروں میں کسی حکومتی مہمان کے لیے اتنی اپنائیت محسوس نہیں ہوئی۔ انہوں نے پاکستان کے لیے مستقبل میں ایک اچھے زمانے کی خوشخبری سنائی ہے۔ لوگ ذرا مطمئن ہیں۔ یہ بات پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے کئی بار آئی مگر لوگوں کو یقین نہیں آیا ۔ اب بات یقین محکم تک جا پہنچی ہے۔
ایک بات اور جو میں نے دل سے محسوس کی ہے کہ خاتون اول بننے کے بعد درویش خاتون کے لیے کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں ہیں۔وزیراعظم جہاں ٹھہرتے ہے اور قیام کرتے ہیں وہ وزیراعظم ہائوس ہوتا ہے۔ اب تو وہاں عمران خان نہ ہوں تو بہت محترمہ بشریٰ بی بی تو وہاں ہوتی ہیں۔ اس جگہ کو وزیراعظم ہائوس بشریٰ بی بی نے بنایا ہے۔
میرا د ل کہتا ہے کہ عمران خان کچھ نہ کچھ کریں گے اور یہ بہت کچھ ہو گا۔ کیونکہ کسی حکمران نے پاکستان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سوائے صدر جنرل ایوب کے کہ ایسی نشانیاں صرف ان کے دورِ حکومت کی یاد دلاتی ہیں۔ ایک جملہ معترضہ پیش خدمت ہے کہ ترقیاتی منصوبے ہمارے ہاں عسکری دور کے ساتھ منسوب ہیں۔ اب کچھ یقین ہے کہ اس جمہوری دور حکومت میں بھی یاد رکھا جائے گا۔
چھ مہینے ہو گئے ہیں مگر کوئی آثار اُن باتوں کے لیے دکھائی نہیں دئیے تھے جو عمران خاں نے الیکشن سے پہلے مختلف تقریروں میں کی تھیں۔ یہ تقریریں لوگوں کو عام طور پر یادہو گئی تھیں۔ عمران خان کو بھی یاد ہونگی۔
اب ہم سمجھتے ہیں کہ آغاز ہوا ہے۔ آغاز ایک راز ہے۔ ہم یادوں اور رازوں سے خوش ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ منسلک رہتے ہیں پھر انجام بھی کسی ناکام نتیجے پر نہیں پہنچتا۔ لوگ شاد کام ہی ہوتے ہیں۔ شاد کاہی کے آثار کو ہر کسی نے اچھی طرح محسوس کیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ سعودی شہزادے محمد بن سلمان کا بھرپور استقبال ہوا ہے۔ یہ اچھے دنوں کا استقبال ہے۔ صوفی یونیورسٹی کی خوشخبری کے ساتھ ایک صوفی ریاست کے لیے بات ہونا چاہئے۔ یہ بات بھی برادرم بخاری صاحب کریں تو ہمیں خوشی ہو گی۔
پچھلے دو روز میں ہر طرف خوشی کی دھنیں ٹی وی چینلز پر سُنائی دے رہی ہیں۔ ایک انوکھا سماں ہے جو ہرطرف بکھرتا جا رہا ہے اور پھر نکھرتا جا رہا ہے۔ میں نے کسی سرکاری مہمان کے لیے اس طرح کے مناظر اور اہتمام نہیں دیکھا ہے۔ یہ اصل میں آنے والے دنوںکے مناظر ہیں۔ میں عمران خان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ وہ کچھ ایسا کر دکھائیں کہ ہم سب ایک دوسرے کو مبارکباد دیں۔ پاکستان کے لیے ایک صوفی ریاست کا خطاب کتنا خوش آئند ہے۔