فلسفہ مجید نظامی اور بھارت کا لامتناہی تعصب!!!!!!
یہ دو ہزار چھ یا سات کی بات ہے۔ پاکستان بھارت کرکٹ تعلقات کے حوالے سے کوئی بیان،اس معاملے پر ہمارے کرکٹ بورڈ یا کپتان کی طرف سے کوئی خبر تھی۔امام صحافت، مرشد صحافت، معمار نوائے وقت اور پاکستان میں کئی دہائیوں تک دو قومی نظریے کی سب سے مضبوط و توانا آواز جناب مجید نظامی نے بلایا فرمانے لگے۔ بھئی برخوردار بھارت کے حوالے سے ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ جنگ تک جاتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات مسئلہ کشمیر کے حل تک ختم کر دیے جائیں۔ ثقافتی وفود کے تبادلے اور کسی بھی قسم کے تعلقات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک واقعہ اس حوالے سے اور بھی ہے۔ شعیب ملک ان دنوں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔سپورٹس لائن حتمی منظوری کے لیے نظامی صاحب کے پاس گیا وہ دفتر واپس بھیجنا بھول گئے اگلے روز دفتر آئے تو وہ کالم اس نوٹ کے ساتھ واپس بھجوایا"معذرت کل یہ کالم رہ گیا تھا آج کرکٹ ٹیم کے کپتان نے بھارت کے ساتھ کھیلنے کے حوالے سے ترلے کیے ہیں اس پر کالم لکھ دیں"۔ جب ذکا اشرف کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے ان دنوں وہ بھی بھارت کے ساتھ یکطرفہ کرکٹ تعلقات پر نوائے وقت کی تنقید سے خوش نہ تھے۔ وہ اپنی کوآرڈی نیشن آفیسر کے ساتھ جناب مجید نظامی سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور مدعا بیان کیا کہ نوائے وقت ان کے ساتھ سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ سارا معاملہ پہلے سے نظامی صاحب کے علم میں تھا کہنے لگے کیا مسئلہ ہے بھئی۔ ہم نے جواب دیا کہ سر یہ کہتے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ کرکٹ کھیلنا چاہتے ہے اور وہ بھی یکطرفہ، اس کام میں ہمارا ساتھ دیں۔ ہماری پالیسی اسکی اجازت نہیں دیتی۔ بھارت کرکٹ سیریز میں بھی ہمارا مقروض ہے اور پی سی بی کی پوری کوشش ہے کہ بھارت جائیں اور سیریز کھیلیں، انکی کوآرڈی نیشن آفیسر بولیں کہ آپ لکھیں لیکن" شوگر کوٹیڈ" کر دیں۔ بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں ختم ہوئی۔ ذکا اشرف اپنے موقف پر قائم رہے اور نوائے وقت اپنی پالیسی پر۔ اس سے پہلے جب شہریار خان جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہلی مرتبہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے اور بھارت کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا ایسی ہی مزاحمت کا سامنا اس وقت بھی رہا۔ اس عرصے میں بہت سے لوگوں نے بھارت کے لیے سخت اور دو ٹوک موقف پر تنقید کی، برا بھی منایا۔ اس دوران بہت سے ایسے واقعات بھی ہوئے جہاں بھارت کی پاکستان دشمنی عروج پر رہی۔ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے، دہشت گرد ملک ثابت کرنے، پاکستانی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی اور باہمی مقابلوں میں شرکت کے لیے ویزے جاری نہ کرنے،ہمارے کرکٹرز کو انڈین پریمیئر لیگ سے باہر کرنے، پاکستان کے ساتھ کرکٹ تعلقات ختم کرنے سمیت ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں بھارت کا تعصب اور پاکستان دشمنی واضح نظر آتی ہے۔ ان سب واقعات اور تاریخ کے سبق کے باوجود ہمارے حکمران ہمیشہ بھارت سے تعلقات کے لیے بچھے بچھے جاتے رہے لیکن وہاں سے کبھی کوئی اچھا پیغام یا جواب نہیں ملا۔ایک مرتبہ پھر بھارت نے روایتی تعصب اور پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کرکٹ سٹیڈیمز سے پاکستانی کھلاڑیوں کی تصاویر ہٹا دی ہیں۔ساتھ ہی پاکستان سپر لیگ کی انڈین نشریاتی کمپنی آئی ایم جی ریلائنس نے بقیہ میچز نشر نہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس کمپنی سے پی سی بی کا تین سالہ معاہدہ ہوا تھا۔ انڈین چینل ڈی سپورٹس نے بھی بھارت میں پاکستان سپر لیگ کی نشریات معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلے پلوامہ میں پیش آنیوالے واقعات کے تناظر میں کیے گئے جسمیں متعدد بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بھارت روایتی تعصب بھرے انداز میں اس واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کر رہا ہے۔ ماضی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں بھی انڈیا نے پاکستان پر الزام تراشیاں کیں۔ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر منفی پراپیگنڈہ کیا جبکہ اس کے جواب میں پاکستان کا رد عمل ہمیشہ امن پسند رہا ہے۔ ہماری طرف سے ہمیشہ جھکاؤ والی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ دوسری طرف کشمیری عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ بھارتی حکومت اور انتہا پسند انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پاکستان میں نقص امن کی کارروائیوں میں بھارت کا ہاتھ اور کردار اب کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کلبھوشن یادیو اسکی زندہ مثال ہے۔پاکستان کا امن خراب کرنے، کشمیریوں کا خوب بہانے اور بھارتی مسلمانوں پر زندگی تنگ کرنے کا ظلم کرنے کے باوجود بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرتا ہے۔ کیا دنیا نہیں دیکھ رہی کہ جمہوریت کی آڑ میں کیسے آزادی کی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے، کیا دنیا نہیں دیکھ رہی کہ کیسے مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیا دنیا نہیں دیکھ رہی کہ کشمیریوں کو تاریخ کے بدترین مظالم کا سامنا ہے۔ بھارت اپنے مظالم کو چھپانے اور کوتاہیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے بجائے حقیقی مسائل کے حل کی طرف آئے۔ کب تک جھوٹ اور طاقت کے زور پر وہ کشمیریوں کا خون بہاتا رہے گا۔ آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ کون انسانوں پر ظلم کر رہا ہے، کون بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہا ہے، دنیا دیکھ رہی بھارتی مظالم کی بدترین تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ تاریخ کبھی ان مظالم اور بھارتی حکمرانوں کی پاکستان دشمنی پالیسیوں کو فراموش نہیں کرے گی۔ اب بھارت کو پاکستان سپر لیگ کی کامیابی سے بھی تکلیف پہنچ رہی ہے۔پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو رہی ہے۔ بھارتی مخالفت کے باوجود پی ایس ایل شروع ہوئی پھر کامیاب ہوئی اور اب تیزی سے ترقی کر رہی ہے، دنیا میں اپنی حیثیت اور اہمیت ثابت کر رہی ہے۔ اس کرکٹ لیگ کی کامیابی بھی بھارت سے ہضم نہیں ہو رہی۔ بھارت یاد رکھے کہ پاکستان سپر لیگ نے مزید کامیاب ہونا ہے، یہاں امن بحال ہونا ہے، اس دھرتی نے ترقی کرنی ہے، یہاں سے امن کا پیغام پوری دنیا میاں جانا ہے، پاکستان سے کھیل کا پیغام پوری دنیا میں جائیگا۔ یہاں ایک مرتبہ پھر کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں کا انعقاد ہو گا۔ مشکل حالات سے گذر کر پاکستانیوں کا جوش وجذبہ بلند ہوا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے دشمن، ہمارے امن کے دشمن جان لیں کہ مشکل ختم ہونے کو ہے۔دنیا اب ایک نیا، پر امن، خوشحال، خوشیاں بانٹتا اور ترقی کرتا پاکستان دیکھے گی۔ قائد اور اقبال کا پاکستان آگے بڑھے گا، روشنی پھیلائے گا،ترقی کرے گا۔
پاکستان زندہ باد!!!!!!!