پاک بھارت تعلقات میں خطرناک موڑ
وزیر اعظم عمران خان کی خواہش تو یہ تھی کہ بھارت سے معمول کے تعلقات قائم ہوں اور یہ جومسلسل تنائو کی کیفیت ہے اس کا خاتمہ ہو۔ اسی لئے انہوںنے اپنی پہلی تقریر میں بھارت کوپیش کش کی کہ پاکستان دوستی کے لئے تیار ہے اور بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو وہ جواب میں دو قدم بڑھائیں گے۔ بھارت نے ا س پیش کش کا کوئی جواب نہ دیا۔ عمران خان بھارتی سرد مہری سے ہر گز مایوس نہ ہوئے۔ انہوںنے بھارتی سکھوں کی ایک دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کے لئے کرتا پور بارڈر کھولنے کاا علان کردیا اور ا س سلسلے میں ایک بڑی تقریب بھی منعقد کی جس میں بھارتی پنجاب کے ایک وزیر اور سابق کرکٹر سدھو صاحب نے شرکت کی۔ سدھو واپس پہنچے تو سارا بھارت ان کے خلاف نعرے لگا رہا تھا اور انہیں غداری کی سزا دینے پر تلا ہوا تھا۔پاکستان نے بھارت سے بہت کہا کہ وہ کرتار پور راہداری کھولنے کے لئے باضابطہ مذاکرات کرے تاکہ اس پلان کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ بھارت نے حیلے بہانے سے ان مذاکرات کو ٹالنا شروع کردیا حتی کہ پلوامہ کا سانحہ پیش آ گیا ، اب تو سارا بھارت جنگی جنون کا شکار ہو گیا۔ بھارت میںمسلمانوں پر حملے شروع ہو گئے ا ور کشمیریوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کر دیا گیا۔ مودی نے دھمکی دی کہ پاکستان نے سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور اب اسے سزا بھی سخت ملے گی۔
پاکستان ان دنوں سعودی شہزادے کے استقبال کی تیاریوں میںمصروف تھا۔ اس لئے مصلحت یہ سمجھی گئی کہ پہلے اس دورے کو بھگتا لیا جائے ۔ جیسے ہی یہ دورہ ختم ہوا تو اگلے روز وزیر اعظم اچانک ٹی وی اسکرین پر نمو دار ہوئے اور بھارت کو سخت جواب دیا۔ اس سے بر صغیر میں کشیدگی آسمان سے باتیں کرنے لگ گئی ہے۔ پلوامہ پر امریکہ ،جرمنی اور چند دوسرے ممالک نے بلا سوچے سمجھے بھارت کی حمائت میں بیان جاری کر دیئے جس سے بھارت کے نشے میں اضافہ ہو گیا۔ اب کسی کو علم نہیں کہ حالات کو ٹھنڈا کیا جائے تو کیسے۔
پاک بھارت تعلقات ابتدا ہی سے خراب چلے آ رہے ہیں۔ بھارت نے جونا گڑھ اور حیدر آباد کے بعد کشمیر پر بھی فوجی جارحیت سے قبضہ جما لیا۔ بعد میں بھارت نے مشرقی پاکستان کے عوام کو بغاوت پر اکسایا اور ایک بار پھر فوجی جارحیت سے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ اب مودی کہتا ہے کہ وہ بلوچستان،ا ٓزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو بھی اسی طرح کے حقوق دلوائیں گے جیسے اکہتر میں مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے تھے۔ اس دھمکی سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بقیہ پاکستان کے بھی حصے بخرے کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لئے دہشت گردی کابازار گرم کئے رکھا ہے۔ اس کا ایک کھلا ثبوت بھارتی را کے حاضر سروس کمانڈر کل بھوشن کی گرفتاری ہے جو بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی پیٹھ ٹھونکنے کے مشن پر مامور تھا ۔بھارت کا یہ الزام بھی بر صغیر میںکشیدگی بڑھانے کا باعث بن رہا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کشمیر میں حریت پسندوں کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ بھارت ا س الزام کے ذریعے پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک ثابت کرنا چاہتا ہے۔
پاک بھارت تعلقات میں چند خوشگوار لمحات بھی آئے ۔ ایک تو نواز شریف نے دوسرے دور حکومت میں واجپائی کو لاہور آنے کی دعوت دی اور دوسرا موقع نواز شریف کے تیسرے دور میں رونما ہوا جب مودی نے نواز شریف کی نواسی مہر النسا ء کی رخصتی کی تقریب میں شرکت کی۔ شاید جنرل ضیا کے ذہن میں بھی بھارت کے لئے کہیں نرم گوشہ موجود تھا کہ انہوں نے بھارتی اداکاروں کوپاکستان مدعو کیا ۔ مگر لگتا یہ ہے کہ جنرل ضیا بھارت کو دھوکہ دے رہے تھے کیونکہ اندر اندر سے وہ ایٹم بم کی تیاری میںمصروف رہے اور انیس سو تراسی میں انہوںنے یہ پراجیکٹ مکمل کر لیاا ور چاغی میں اس کے ٹیسٹ کے لئے سرنگیںکھودنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے۔ جنرل ضیا ہی کے دور میں بھارت نے ایسی جنگی مشقیں کیں جن میں اصلی اسلحہ اور گولہ بارود استعمال کیا گیا اور دشمن کے اہداف کے نام بھی اصلی استعمال کئے گئے۔اس موقع پر جنگ ناگزیر دکھائی دیتی تھی مگر جنرل ضیا نے کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے ماحول کی گرمی کو دور کیا۔ یہی وہ موقع تھا جب دی نیشن نے ڈاکٹر قدیر کا انٹرویو شائع کیا کہ پاکستان یورینیم کی افزودگی میںکامیاب ہو چکا ہے جس سے بم تیار ہو سکتا ہے۔ اس پر بھارتی فوج کو الٹے پائوں چھائونیوں کی طرف واپس جانا پڑا۔ اسی طرح کی کشیدگی ممبئی حملوںکے بعد بھی پیدا ہوئی ۔ بھارت ایک بار پھر اپنی فوج کو جارحانہ عزائم کے تحت بارڈر پر لے آیا تھا ، پاکستان نے بھی مجبوری میں اپنی فوج کو مورچہ زن کر دیا۔ اس کشیدگی کو دور کرنے میں جنرل مشرف نے کردار ادا کیااور نیپال میں سارک کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر اعظم واجپائی کی طرف مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔ واجپائی کے لئے انکارممکن نہ تھا۔
ایسے گر کب تک آزمائے جاتے رہیں گے اور کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ اس قسم کی جادو گری کسی کام بھی آ سکے گی یا نہیں ۔ ا سلئے دونوں ملکوں کو سیدھے سبھائو مسئلہ کشمیر مل بیٹھ کر طے کر لینا چاہئے ۔ بھارت خود سلامتی کونسل میں گیا جہاں استصواب رائے کی قراردادیں منظور کی گئیں کہ کشمیری خود فیصلہ کریں کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں مگر ستر سال گزر گئے ۔ بھارت اس استصواب کے انعقاد کی طرف آیا ہی نہیں۔
بھارت میں اس وقت تو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی حکومت ہے مگر جب وہاں کانگرس کی حکومت بھی ہوتی ہے تو پاکستان کے ساتھ معاندانہ سلوک ہی کیا گیا، کانگرس ہی نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ کانگرس ہی نے پینسٹھ میں جارحیت کی اور یہ کانگرس ہی تھی جس نے اکہترمیں پاکستان کو دو لخت کیا۔ کشمیر پر قبضے کو مستحکم رکھنا ہر بھارتی کی خواہش ہے۔ کشمیر کے ذریعے بھارت کو پاکستان کے خلاف ا ٓبی جارحیت کا موقع ملتا ہے اور وہ نعرہ لگاتا ہے کہ بوند بوند کو ترسے گا پاکستان ۔پیاسا مرے گا پاکستان۔ قبرستان بنے گا پاکستان۔
بھارت اور پاکستان میں کشیدگی ایک بار پھر انتہا پر ہے دونوں طر ف سے دھمکیاں اور جوابی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ آزاد دنیا خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہے۔ کشمیری مرتے رہیں، دنیا کو کیا پروا پا کستان ا ٓبی جارحیت کا شکار ہوتا رہے، دنیا کو کیا پروا ۔ پاکستان کے طو ل وعرض میں بھارت دہشت گردی کابازار گرم کئے رکھے دنیا کو کیا پروا۔ بلکہ ہم بھی بھارت اور عالمی دبائو پر حافظ سعید ا ور مسعود اظہر پر سختیاں بڑھا دیتے ہیں حالانکہ ہماری عدالتیں بھارتی الزامات کو مسترد کر چکی ہیں۔ پھر بھی ہمارے ہاں یہ کہنے والے کم نہیں کہ حافظ سعید کوئی سونے کے انڈے دینے والی مرغی نہیں کہ ہم نے اسے پال رکھا ہے۔ ویسے کوئی بتائے کہ اس وقت حافظ سعید کہاں ہیں۔
بھارت کے سیا سی پنڈت کھل کر کہہ رہے ہیں کہ مودی الیکشن سے پہلے پہلے پاکستان سے بڑی جنگ ضرور چھیڑے گا۔ بھارت کو شرارت کے لئے سازگار ماحول در کار ہوتا ہے۔ اسے بھی صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستان کا سیاسی ا نتشار آج اکہتر سے زیادہ سنگین ہے اور عالمی برادری بھی پاکستان سے دور ہے ۔ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ کچھ معاہدے کئے ہیں تو اتنے ہی معاہدے سعودیہ نے بھارت سے بھی کئے ہیں مگر پاکستان اور ایران میں دوری پیدا ہو گئی ہے۔ اور چین کے ساتھ بھی سی پیک پر پہلے جیسی گرم جوشی نظر نہیں آتی۔ یہ ہمیں سوچنا ہے کہ بھارت کی کسی شرارت سے بچنا ہے تو ہم قومی یک جہتی کے لئے کوئی اقدام کریں تاکہ ملک میں وہ فضا پیدا ہو جو پینسٹھ میں دیکھنے میں آئی تھی۔
یہاں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ڈھمکیری کا ذکر ضرور کرنا چاپتا ہوں۔ کسی من چلے نے تجویز دی ہے کہ سکیورٹی رسک کی وجہ سے پاک بھارت جنگ دبئی میں کروا لی جائے۔
٭٭٭٭٭