نیب کے شہبازشریف پر الزام غلط نکلے‘ ہائیکورٹ ‘ آشیانہ کیس‘ رمضان شوگر ملز میں ضمانت کے تحریری فیصلے
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کی ضمانتوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے آشیانہ ہاﺅسنگ کیس کا 22 اور رمضان شوگر ملز کا 20 صفحات کا فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ نیب کے الزامات کو مسترد کردیا اور قرار دیا کہ نیب کا ٹھیکہ شہبازشریف کی جانب سے منسوخ کرنے کا الزام غلط نکلا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ٹھیکہ باہمی رضامندی سے منسوخ کیا گیا۔ ٹھیکہ غیرقانونی طورپر ایل ڈی اے کو منتقل کرنے کا الزام بھی درست نہیں۔ پی ایل ڈی سی کے بورڈ کی منظوری سے ٹھیکہ ایل ڈی اے کو منتقل ہوا۔ رولز آف بزنس کے تحت وزیراعلی کو اسے منتقل کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ عدالت نے سوال کیا کہ حکومت جب خود پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ طرز پر گھر بنارہی ہے تو پھر اگر پبلک پرائیویٹ کی بنیاد پر کوئی کام کرتا ہے تو نیب کو کیا اعتراض ہے؟ عدالت نے اپنے فیصلے میں زمین منتقلی کے اعتراضات بھی مسترد کردئیے۔ عدالت نے تفصیلی فیصلے میں نیب کے ایک ایک الزام کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور انہیں دلائل اور حقائق کے حوالہ جات کے ساتھ مسترد کردیا۔ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ٹھیکہ شہبازشریف نے نہیں دیا تھا۔ عدالت نے واضح کردیا کہ آشیانہ میں ایک انچ سرکاری زمین منتقل نہیں ہوئی اور نہ کسی کو نقصان ہوا۔ منصوبے میں کسی کا پیسہ شامل نہیں تھا۔ بولیوں کے حوالے سے شکایات آنے پر خود شہبازشریف نے معاملہ تحقیقات کے لئے طارق باجوہ کی سربراہی میں کمیٹی کو بھجوایا۔ طارق باجوہ انکوائری کمیٹی نے بولی کے عمل میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔ یہ نشاندہی ہوئی کہ پراجیکٹ ڈائریکٹر نے کنسلٹنٹس کو بولی والے دن بولی والے کاغذات حوالے نہیں کئے۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ بولی سے ایک روز قبل رات کو طاہرخورشید ٹھیکیدار چوہدری لطیف اینڈ سنز کو ملا۔ طاہر خورشید نے خود اعتراف کیا کہ وہ رات کو ٹھیکہ دار سے ملا تھا، اس سے اس کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں چوہدری لطیف کی بنک گارنٹی کے ایشو کی بھی نشاندہی کی ہے اور لکھا کہ پی ایل ڈی سی کے بورڈ کی منظوری سے سب فیصلے ہوئے۔ رمضان شوگر ملز کیس میں تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ گندے نالے سے ایک بڑی آبادی کو فائدہ ہورہا ہے جبکہ سرکاری گودام بھی اس سے استفادہ کررہا ہے۔ نیب ثابت نہیں کرسکا کہ نالہ صرف ملز کو فائدہ پہچانے کے لئے بنایا گیا۔ مل چوبیس سال سے کام کررہی ہے لیکن اس عرصہ کے دوران کبھی اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں آئی۔ پراسیکیوشن کے اپنے گواہ کہہ رہے ہیں کہ مل نے فضلہ ٹھکانے لگانے کے لئے تالاب بنائے گئے ہیں۔ پٹواری کے بیان میں واضح ہے کہ یہ تالاب بنے ہوئے ہیں۔ کسی سکیم پر عمل درآمد سے ارکان پارلیمان کو کیسے روک سکتے ہیں؟ دیانتدار اور اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے ادا کرنے والے ارکان پارلیمان کا بہت احترام ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد یہ سکیم اسمبلی سے بھی منظور ہوئی، جس کے بعد اس میں وزیراعلی کے حکم نامے یا ہدایت نامے کا کردار نہیں رہتا۔ چنیوٹ اور جھنگ میں جو دیگر ڈرینج سکیمیں بنی ہیں، نیب نے ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ کیا یہ کارروائی اس لئے کی گئی کہ درخواست گزار کی مل اس راستے میں آتی ہے؟ ڈرینیج حکومت کی ملکیت ہے۔ شہبازشریف اور ان کے بچے ڈرینیج کی ملکیت کے دعویدار نہیں۔ مل کے معاہدے موجود ہیں۔ مولانا رحمت اللہ کی ملی بھگت سے اگر یہ معاملہ ہوا تھا اور اس نے جعلی درخواست دی تھی تو پھر اسے بنیادی گواہ کیوں بنایا گیا اور ملزم کیوں نہیں بنایا گیا؟ حمزہ شہباز کا بھی معاملے سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔
تفصیلی فیصلہ