سعودی شہزادی ریما کو بطور سفیر امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کا چیلنج در پیش ہے: بی بی سی
ریاض ( بی بی سی) سعودی عرب نے شہزادی ریما بنت بندر سلطان کو امریکہ میں سعودی سفیر مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا، وہ سعودی ولی عہد کے چھوٹے بھائی شہزادہ خالد بن سلمان سے اس عہدے کا چارج لیں گی جنہیں مملکت کے نائب دفاعی وزیر کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔ شہزادی ریما طویل مدت تک امریکہ میں تعینات رہنے والے سابق سفیر بندر بن سلطان ال سعود کی بیٹی ہیں۔ ان کے والد کی تقرری کے دوران انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ امریکہ میں ہی گزارا تھا۔ شہزادی ریما نے میوزیم سٹڈیز میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اس دوران انہوں نے پیرس میں اور بعد میں واشنگٹن کی مشہور سیکلر آرٹ گیلری میں انٹرن شپ بھی کی۔ 2005 میں ریاض واپس آنے کے بعد شہزادی ریما نے پبلک اور پرائیویٹ دونوں سیکٹرز میں کام کیا ہے۔ شہزادی ریما کئی کاروباری عہدوں پر تعینات رہی ہیں۔ وہ ریاض میں موجود معروف برطانوی لگژری ڈپارٹمنٹل سٹور ہاروی نکولس کی سی ای او بھی رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے خواتین ملازمین کو' ٹرانسپورٹ الاؤنس' دینے کے پروگرام کا بھی اعلان کیا، کیونکہ 2011 میں سعودی خواتین پر گاڑی چلانے پر پابندی تھی تو انہیں کام پر آنے کے لیے ٹیکسی کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔ ان سب کا مقصد سعودی خواتین کی ملازمتوں اور ریٹیل کے شعبے میں شرکت بڑھانا تھا۔ شہزادی ریما کی یہ سکیمیں کارگر ثابت ہوئیں اور آج سعودی عرب میں ہاروے نکولس کے سٹورز میں درجنوں خواتین کام کر رہی ہیں۔ یہ 2011 کے مقابلے میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جب وہاں صرف مرد ملازمین کام کرتے تھے۔ شہزادی کو وسیع پیمانے پر خواتین کے حقوق کی وکیل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ شہزادی ریما برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے ساتھ پبلک سیکٹر میں کام کرتے ہوئے شہزادی ریما کو سعودی عرب کی جنرل سپورٹس اتھارٹی کے طور پر تعینات کیا گیا جہاں انہوں نے نا صرف سعودی عرب کے کھیلوں کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا بلکہ ان کی توجہ سپورٹس اور ایکسرسائز میں خواتین کی شرکت بڑھانے پر بھی مرکوز رہی ہے۔ وہ 2014 میں امریکی میگزین فوربز کی 'موسٹ پاورفل عرب وومن' یعنی سب سے طاقتور عرب خواتین کی فہرست میں بھی شامل تھیں۔ شہزادی ریما، عوامی سطع پر اس بات پر زور دے چکی ہیں کہ خواتین کی ملازمتوں میں شمولیت کا مقصد 'ایوولیوشن ناٹ ویسٹرنائزیشن' ہے، یعنی کہ خواتین کو بہتری اور آنے والے وقت کے لیے تیار کرنا ہے نہ کہ انہیں مغرب کی طرف راغب کرنا۔ وہ اس بات پر بھی زور دے چکی ہیں کہ سعودی عرب کی نصف آبادی گھر نہیں بیٹھ سکتی۔ شہزادی ریما کی تعیناتی ایک مثبت قدم ہے لیکن انہیں سعودی امریکی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک بڑے چیلینج کا سامنا ہے اور امریکہ اور سعودی عرب کے مستقبل کا انحصار بھی اب اسی پر ہے۔