سنان اشفاق کا ایک اور گولڈ میڈل!!!!!!
پاکستان کے ہونہار بیٹے سنان اشفاق متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں اور پاکستان تائیکوانڈو فیڈریشن کے تعاون سے بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے شارجہ میں ہونیوالی یو اے ای اوپن تائیکوانڈو چیمپئن شپ میں ایک اور طلائی تمغہ جیت کر وطن کا نام روشن کر دیا ہے۔تیرہ سالہ سنان اشفاق نے کیڈٹ پینسٹھ کلو گرام کیٹیگری میں حریف فجیرہ کے کھلاڑی کو پہلے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر دیا۔ شارجہ کے تائیکوانڈو کلب میں جب سنان اشفاق نے حریف کھلاڑی کو ناک آؤٹ کیا تو ہال میں موجود شائقین نے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کیے۔ سنان نے ایک مرتبہ پھر متحدہ عرب امارات میں ہونیوالے مقابلوں میں سبز ہلالی پرچم سر بلند کیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ فجیرہ میں ہونیوالی چیمپئین شپ میں بھی طلائی تمغہ جیتا تھا۔ گولڈ میڈل جیتنے کے بعد سنان اشفاق کا کہنا تھا کہ پاکستان کی نمائندگی کرنا اور میڈلز جیتنا میرا مشن ہے، ہر کامیابی میرا حوصلہ بڑھاتی ہے اور یو اے ای تائیکوانڈو چیمپئین شپ میں گولڈ میڈل جیتنے پر بہت خوش ہوں۔ والد مجھے بہت سپورٹ اور کھیل کے معاملے میں ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں اگر میں تائیکوانڈو میں میڈل جیت رہا ہوں تو اسکا کریڈٹ میرے والد کو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی مصروفیات سے میرے لیے وقت نکالتے اور پریکٹس کو ممکن بناتے ہیں۔ کھیل کے ساتھ تعلیم کو جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے تاہم یہ سب والد کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان تائیکوانڈو فیڈریشن کے صدر لیفٹینینٹ کرنل ریٹائرڈ وسیم احمد جنجوعہ کا بھی مشکور ہوں وہ مجھے پاکستان کی نمائندگی کا موقع اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ رواں ماہ بیلجیئم میں ہونیوالی جی ٹو چیمپئین شپ میں شرکت کے لیے جا رہا ہوں۔ اس ایونٹ میں دو سو سے زائد پلیئرز شرکت کر رہے ہیں میں بھرپور تیاری کے ساتھ جاونگا، اس ایونٹ میں بھی اچھے نتائج کے لیے پرامید ہوں۔ سنان کے والد محمد اشفاق کا کہنا ہے کہ ہم متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں اور کوشش ہے کہ بیٹے کو بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کرنے اور میڈلز جیتنے کے لیے ہر ممکن سہولیات فراہم کریں۔ پاکستان تائیکوانڈو فیڈریشن کا مشکور ہوں کہ وہ سنان کو بین الاقوامی سطح پر صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بیٹے کے تمام اخراجات خود برادشت کرتے ہیں۔ پاکستان میں کھیلوں کا بہت ٹیلنٹ موجود ہے کئی ایسے باصلاحیت پلیئرز ہونگے جن کے پاس وسائل نہیں ہوتے وہ کیسے آگے آئیں، کھیلیں اور ملک کا نام روشن کریں۔ بنیادی طور پر تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے بدقسمتی سے ایسی کھیلوں کو نظر انداز کیے جانے کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔ اب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ہیں وہ کھیل اور کھلاڑیوں کے مسائل اور کھیلوں کی اہمیت کو بہت بہتر سمجھتے ہیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں حکومت پاکستان تمام کھیلوں کو یکساں اہمیت دے گی اور تمام کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کے اظہار کے بہتر مواقع ملیں گے۔سنان اشفاق اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں مختلف کھیلوں میں والدین اپنے بچوں کے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ اعصام الحق اس کی بڑی مثال ہیں۔ ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ کے والد انہیں آگے بڑھانے کے لیے اپنا سرمایہ اور وقت خرچ کرتے ہیں۔ ٹینس، سنوکر، ریسلنگ، ویٹ لفٹنگ، سوئمنگ سمیت دیگر کھیلوں میں کھلاڑیوں کی بڑی تعداد کی طرف سے فنڈز کی کمی، حکومتی عدم توجہی کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ کئی کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں میڈلز بھی جیتتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر انکی پذیرائی نہیں ہوتی۔ کھلاڑی گلے شکوے کرتے ہیں، غصہ کرتے ہیں، حکمرانوں سے اپیلیں کرتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں پھر چپ ہو جاتے ہیں اور نئے عزم کے ساتھ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود اقتدار کے ایوانوں سے جواب کم ہی آتا ہے۔
کھیلوں کے ذریعے ملک کا خوش کن تاثر دنیا میں جاتا ہے، کھلاڑی امن کے سفیر ہوتے ہیں۔ اس شعبے کے ذریعے ہم بیرونی دنیا کو قائل کرتے ہیں۔ بند راستے کھولتے اور ٹوٹے ہوئے تعلقات کو بحال کرتے ہیں۔ دنیا کھیلوں کے ذریعے نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں میں مصروف کر کے ترقی کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی یہ شعبہ منصوبہ سازوں، فیصلہ سازوں اور حکمرانوں کی توجہ کا منتظر ہے جب کوئی کھلاڑی انفرادی طور کامیابی حاصل کرتا ہے تو مبارکباد دینے اور کریڈٹ لینے سب آ جاتے ہیں لیکن جب کھلاڑی مشکل وقت سے گذر رہا ہوتا ہے اس وقت کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔ امید ہے کہ آنیوالے دنوں میں اس اہم شعبے کو اسکا جائز حق دیا جائے گا اور پاکستان کا ٹیلنٹ وسائل اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ضائع نہیں ہوگا۔