لاہور سے میچز واپس کیوں لیے گئے؟؟؟؟
اٹھائیس فروری کو دبئی سٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی سے بار بار یہ پوچھا گیا کہ موجودہ حالات میں پی ایس ایل میچز کا پاکستان میں انعقاد ممکن ہے، کیا اس بارے آپ نے حکومت سے بات چیت کی ہے، کیا تمام انتظامات کر لیے گئے۔ پاکستان میں میچوں کے معمول کے مطابق انعقاد پر ان سے ایک سے زیادہ مرتبہ سوال کیا گیا انہوں نے ہر مرتبہ پرزور انداز میں میچز شیڈول کے مطابق کروانے کا جواب دیا، پریس کانفرنس کے دوران ان سے حکومت کی اجازت بارے سوال ہوا تو جواب ملا کہ اسکی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تاہم قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے مکمل رابطے میں ہیں۔ پریس کانفرنس کے بعد میڈیا باکس میں احسان مانی کے اس فیصلے پر بات چیت ہوتی رہی اکثریت کا خیال یہی تھا کہ بورڈ چیئرمین نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو یہ فیصلہ بدلنا پڑے گا۔بعض لوگ یہ بھی کہتے رہے کہ اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا گیا ہے اور نئے مینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ وہ بہت تجربہ کار، سمجھدار کرکٹ منتظم ہیں۔ برطانیہ سے آئے ہیں ان سے جلد بازی کی توقع نہیں ہے۔ وہ خود پریس کانفرنسمیں موجود تھے اس کا مطلب ہے کہ سارے عمل میں انکی رائے بھی شامل ہے۔
اب پاکستان کرکٹ بورڈ نے لاجسٹک مسائل کی وجہ سے لاہور کے میچز کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کرکٹ بورڈ نے پریس ریلیز میں جو وجوہات بیان کی ہیں کیا ان مشکلات کا اندازہ اٹھائیس فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے نہیں تھا، بورڈ آفیشلز نے جلد بازی کا مظاہرہ کیوں کیا، پی سی بی چیئرمین نے اٹھائیس فروری کو پریس کانفرنس کرنے سے پہلے صوبائی اور وفاقی حکومت کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا، بالخصوص پنجاب حکومت سے مشورہ کیے بغیر اٹھائیس فروری کو تمام میچز شیڈول کے مطابق کرنے کا اعلان کیوں کیا، پی سی بی چیئرمین نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے گورننگ بورڈ سے مشورہ کیا، بورڈ آف گورنرز کو اعتماد میں لیا گیا، اگر مسئلہ صرف فلائٹس اور سامان کا ہے تو کیا میچز پہلے کراچی میں شروع کروا کر لاہور میں مقابلوں کا انعقاد کروانے کا بندوبست نہیں کیا جا سکتا تھا، کیا حقیقی مسائل وہی ہیں جو پاکستان کرکٹ بورڈ نے پریس ریلیز میں بیان کیے ہیں، حکمت عملی میں کس چیز کی کمی رہی اور کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی اور انکے پسندیدہ ایڈمنسٹریٹر وسیم خان اپنے پہلے امتحان میں کامیاب ہوئے یا نہیں۔کرکٹ کے حلقوں میں اس حوالے سے بحث جاری ہے۔مشکل حالات میںاحسان مانی کی قوت فیصلہ کا یہ پہلا امتحان تھا کیا اس اہم موقع پر وہ اپنے کارڈز مناسب انداز میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوئے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ لاہور سے میچوں کی منتقلی کا فیصلہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے بجائے حکومت پنجاب نے کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے ذمہ دار ذرائع بتاتے ہیں کہ پی سی بی نے لاہور اور کراچی میں میچز شیڈول کے مطابق کروانے کے اعلان جلد بازی میں کیا تھا۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ حکومت پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کی کیفیت ہے ان حالات میں سب سے زیادہ خطرہ لاہور کو ہے۔ دشمن ہمارے کرکٹرز، غیر ملکی کھلاڑیوں اور مہمانوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ کرکٹرز کی حفاظت کے پیش نظر لاہور میں ہونیوالے میچوں کو کراچی منتقل کیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت کا موقف تھا کہ بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے اور وہ پاکستان سپر لیگ کے لاہور میں ہونیوالے میچوں کو ہدف بنا سکتا تھا اس صورتحال میں بہت بڑے نقصان کا خطرہ ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ ان وجوہات کی بنا پر پنجاب حکومت نے قذافی سٹیڈیم کے بجائے میچز نیشنل سٹیڈیم میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ جلد بازی اور مناسب مشاورت کے بغیر کیے گئے فیصلے کی وجہ سے پی سی بی شرمندگی کا سامنا کرنا، مشاورت کے دعوے کرنیوالے پی سی بی چیئرمین نے اس اہم ترین مسئلے پر سٹیک ہولڈرز کو نظر انداز کیوں کیا، کھلاڑی ہو یا منتظم اسکی صلاحیتوں کا امتحان انڈر پریشر ہوتا ہے۔ وہ حنیف محمد ہوں یا فضل محمود، جاوید میانداد ہوں یا آصف اقبال، عبدالقادر ہوں یا توصیف احمد، عمران خان ہوں یا اے ایچ کاردار، توقیر ضیاء ہوں یا خالد محمود، ڈاکٹر نسیم اشرف ہوں یا ڈاکٹر ظفر الطاف، ذکا اشرف ہوں یا اعجاز بٹ، شہریار خان ہوں یا مجیب الرحمٰن، نجم سیٹھی ہوں یا احسان مانی جو بھی دباؤ میں پرفارم کرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے احسان مانی پر دباؤ آیا ہے وہ دباو میں اچھا پرفارم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ اس وقت مسئلہ لاہور اور کراچی میں میچز کا نہیں، وطن کی حفاظت اور دفاع کا ہے پاکستان سپر لیگ کے میچز کسی بھی سٹیڈیم میں ہوں۔ شائقین کرکٹ جوش و خروش کے ساتھ غیر ملکی کرکٹرز کو خوش آمدید کہیں گے۔ پاکستان ہے تو سب ہیں، پاکستان کی حفاظت سب سے اہم ہے۔ بھارت نے روز اول سے اب تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور وہ ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ دشمن ہر طرف سے وار کرتا ہے اور گزشتہ چند برسوں میں بالخصوص پاکستانی کھیلوں کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے کھلاڑیوں نے ہر میدان میں سبز ہلالی پرچم سربلند رکھا ہے۔ اس مرتبہ بھی جیت پاکستان کی ہو گی۔ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ برس اور اس سے پہلے پی ایس ایل کے
میچز اور دیگر کرکٹ میچز کے کامیاب انعقاد سے دنیا کو بتا دیا تھا کہ ہمارا ملک محفوظ ہے اور ہم اپنے مہمانوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں یہ مشکل عارضی ہے ختم ہو جائے گی اور ایک مرتبہ پھر قذافی سٹیڈیم میں میدان سجے گا۔ دعا ہے کہ کراچی میں ہونیوالے میچز کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو اور ایک مرتبہ پھر دنیا کو پاکستان سے امن، محبت اور پیار کا پیغام جائے۔پاکستان زندہ باد!!!!!
٭٭٭٭٭