پاکستان کو وہاں لے جائینگے جو اس کا حق ہے، نہیں چاہتے امن متاثر ہو: فوجی ترجمان
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کو وہاں لے جائیں گے جہاں اس کا حق بنتا ہے۔ پاکستان نہیں چاہتا خطے کا امن متاثر ہو۔ دونوں ملکوں میں 26 سے 28 فروری تک کافی تناؤ رہا۔ بھارتی ائرفورس نے 26 فروری کو فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ بھارت کی جانب سے ڈوزیئر ملا اس پر تحقیقات جاری ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر 2014ء سے عملدرآمد جاری ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر جس طرح عمل ہونا چاہئے تھا نہیں ہوا۔ سال 2014ء میں پلوامہ‘ ایف اے ٹی ایف نہں تھا۔ سسٹم بہتر ہو گا تو پاکستان کو ہی فائدہ ہو گا۔ پلوامہ واقعے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جارحیت جاری ہے۔ پاکستان بھارت کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطہ نہیں ہو سکا۔ افواج پاکستان بھارتی جارحیت کا جواب دینے کیلئے تیار ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں کچھ فنانشل ایشوز بھی تھے۔ جماعت الدعوۃ‘ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی کا فیصلہ جنوری میں ہو چکا تھا۔ یہ وقت اکٹھے ہونے کا ہے۔ اب پاکستان کا بیانیہ چلے گا۔ ہم کسی کے کہنے پر یہ سب کچھ نہیں کر رہے۔ پاکستان گزشتہ 15 برس سے جنگ لڑ رہا ہے۔ بھارتی میزائل حب کے علاقے میں آ کر گرے تاہم ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بھارت کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا کہ وہ کہاں جانا چاہتا ہے۔ دونوں اطراف اضافی حفاظتی سیف گارڈز ہیں کشیدگی تو ہے تاہم سٹرٹیجک ٹھہراؤ ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو دیکھنا ہو گا کہ وہ کہاں تک جانا چاہتے ہیں اس سے اگلا پوائنٹ بہت دور تک جائے گا اور مشکل ہو گا، پاکستان نہیں چاہتا کہ خطے کا امن متاثر ہو، عالمی برادری پاکستان اور بھارت کے درمیان امن دیکھنا چاہتی ہے لہٰذا بھارت کے لئے بہتر ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور امن کی طرف چلا جائے جہاں سے دنیا بھی دیکھنا چاہتی ہے اور پاکستان بھی چاہتا ہے کہ اس قسم کی کوئی کارروائی نہ ہو ۔ بھارت نے اگر کچھ بندوں کے نام دیئے ہیں یا کسی جگہ کا نام دیا ہے تو وزیر اعظم کے وعدے کے مطابق ان کی تحقیقات کی جائے گی اگر وہ ملوث پائے گئے تو ان کو کورٹ آف لاء میں لے جایا جائے گا اور انکوا سزا دی جائے اور یہ بھی کہہ دیا کہ وہ دبائو کے تحت نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد شروع ہو گیا تھا، اس کیلئے خصوصی عدالتیں اور فورس بننی تھیں حالانکہ اس وقت کوئی پلوامہ نہیں ہوا تھا اور نہ ایف اے ٹی ایف تھا۔ انہں نے کہا کہ فلاح انسانیت اور جماعت الدعوۃ پر پابندی کا فیصلہ جنوری میں کر لیا گیا تھا اور اس میں فوج کی خواہش بھی شامل تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے لئے جن پوائنٹس پر عمل کرنا تھا وہ بھی کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری خواہش ہو گی کہ رائے عامہ بنانے والوں کو اس بات سمجھانا چاہئے کہ یہ متحد ہونے کا وقت ہے، ہم سب مل نظام کو بہتر کرینگے ، نظام بہتر ہو گا۔