• news
  • image

مودی سے بیزار بھارتی،دبئی سے واپسی اور پی آئی اے!!!!!

نوائے وقت کے پرانے دفتر میں ایک بزرگ محمد سلطان آیا کرتے تھے، غالبا کسی نیوز ایجنسی سے منسلک تھے۔ انکی پیدائش انیس سو پینتیس کی تھی۔ انکا شمار مہاجرین میں ہوتا تھا۔ خوش مزاج تھے اپنا کام کرتے اور چلے جاتے، کئی سال تک انکا یہی معمول رہا۔ وہ ہماری نئی بلڈنگ میں بھی آتے رہے۔ ان سے ایک سے زیادہ مرتبہ قیام پاکستان کے حالات پر بات چیت ہوئی۔ہمارا سوال اور انکا جواب ہمیشہ ایک ہی ہوتا تھا۔ بابا جی یہ لاہور میں جو ترقی دیکھ رہے ہیں پاکستان نہ بنتا تو کیا ہوتا۔ وہ کہتے یہ ہزاروں لاکھوں گاڑیاں سڑکوں پر نظر آ رہی ہیں سب ہندوؤں کی ہوتیں۔ پاکستان نہ بنتا تو مسلمان کبھی ترقی نہ کرتے۔ نوائے وقت کی پرانی بلڈنگ کی گلی میں ایک بابا جی جوتوں کی مرمت و پالش کر کے کاروبار زندگی چلا رہے تھے۔ دفتر میں مختلف لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا انہیں ایک قوم جس نے قیام پاکستان کے وقت ظلم کے پہاڑ توڑے، مسلمانوں کا خون بہایا ان پر شدید غصہ تھا۔ بابا جی کے سامنے جب بھی اس قوم سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص آتا اور ہمارے لوگ اسے بڑھکر گلے ملتے تو بابا جی رونے لگتے تھے ایسا ایک نہیں کئی مرتبہ ہوا۔ ہم نے ان سے پوچھ لیا کہ ماجرا کیا ہے۔ کہنے لگے یہ جو انہیں گلے ملتے ہیں اگر انہوں نے اگست انیس سو سینتالیس میں اس قوم کے مظالم دیکھے ہوتے تو اندازہ ہوتا کہ ہم کیسے اور کن حالات میں پاکستان پہنچے تھے۔ میرے بس میں کچھ نہیں ہے صرف آنسو بہا سکتا ہوں غم و غصّے کے اظہار کا یہی طریقہ ہے۔ یہ دو واقعات ہیں ایسے ہزاروں واقعات ہونگے جن لوگوں نے ہجرت کے وقت ظلم برداشت کیا اور پاکستان پہنچے۔ ان دنوں ایک مرتبہ پھر ہمارا ازلی دشمن بھارت جنگ کا ماحول بنائے بیٹھا ہے۔ باوجود اسکے کہ پاکستان نے انکے طیارے گرائے، پائلٹ پکڑا اور چھوڑ بھی دیا لیکن خطے کے امن کو تباہ کرنے والے "مودی فلیور" کی عقل ٹھکانے نہیں آئی۔ بیرون ملک بسنے والے بھارتی بھی مودی کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے۔
دبئی میں پاکستان سپر لیگ کی کوریج کے دوران ہماری بھارت سے تعلق رکھنے والے کئی افراد سے ملاقاتیں ہوئیں۔ سب نے نریندر مودی کو برا بھلا کہا۔ واپسی سے ایک روز قبل ہمیں بردبئی جانے کا اتفاق ہوا ایک ریسٹورنٹ میں چار بھارتی خواتین چائے کے لیے بیٹھی تھیں سب مل کر مودی سرکار کی امن دشمن پالیسیوں پر تنقید اور عمران خان کی طرف سے بھارتی پائلٹ کی رہائی کے فیصلے کی تعریف کر رہی تھیں۔ اس کے بعد ہم مارکیٹ گئے وہاں سردار جی سے پوچھا کیا کہتے ہیں مودی سرکار بارے، کہنے لگے "چھڈو جی" ایہہ کوئی گل اے، سرکار ہوش کرے، رات دبئی مرینہ گئے یہاں بھی بھارتیوں کی اپنے وزیر اعظم بارے رائے منفی ہی تھی۔ اکثریت نے یہی کہا کہ سرکار جو کر رہی ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اقتدار کی سیاست کر رہے ہیں۔ ائیر پورٹ پر بھی بھارتیوں کو جنگ کے حالات کی وجہ سے پریشان ہی دیکھا۔ ائیر سپیس بند ہونے سے سینکڑوں مسافر پریشان تھے۔ یہاں انیس سو چورانوے عالمی کپ ہاکی ٹورنامنٹ جیتنے والی ٹیم کے رکن رحیم خان تحمل مزاجی سے مسافروں کے مسائل حل کرنے میں مصروف تھے۔ ائیر سپیس کی بندش سے پاکستان کی طرف سفر کرنیوالے تمام افراد مودی کی "عزت افزائی"کر رہے تھے۔ پی آئی اے کے عملے نے بہتر انداز میں مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ جہاز کے عملے کا رویہ بھی اچھا تھا۔یہ الگ بات کہ دوہزار سترہ یا اس سے پہلے جو خامیاں یا نقائص موجود تھے وہ ابھی تک دور نہیں کیے جا سکے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا بہتر کرنے کے لیے دن رات محنت کی ضرورت ہے۔ حالت جنگ میں بہتر پرفارم کیا جا سکتا ہے تو عام حالات میں ایمانداری و یکسوئی سے کام کر کے اس اہم ادارے کو پاؤں پر کھڑا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟؟
جہاز میں ہم سے پہلے دی نیشن کے سینئر سپورٹس رپورٹر محسن علی پہنچ چکے تھے ارگرد مسافروں کو علم ہو چکا تھا کہ کچھ صحافی حضرات بھی ہمسفر ہیں۔ محسن علی اپنے روایتی جارحانہ انداز میں بھارتی حکومت پر تنقید کر رہے تھے۔سننے والے انکی گفتگو سے محظوظ ہو رہے تھے۔ہماتے پہنچنے پر دائیں بائیں والوں نے پی ایس ایل کے پاکستان میں ہونیوالے میچز کے حوالے سے سوالات کیے۔ مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ روز اول سے پاکستان سپر لیگ کے مخالف ہمارے ہمسائے نے اپنی جارحانہ پالیسیوں کے ذریعے اس برانڈ کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اسمیں کچھ شک نہیں کہ بھارت نے پاکستان دشمنی میں خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ پی ایس ایل کے میچز لاہور سے کراچی منتقل کر دیے گئے ہیں۔ پاکستانی قوم اس مشکل وقت میں متحد ہے۔دشمن کی مکاریوں کا جواب دینے اور ہماری افواج انہی۔ تہس نہس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم امن کی طرف بڑھ رہے۔ ہمارے کھیل کے میدان آباد ہونے کے قریب ہیں۔ بہت جلد یہاں سٹیج سجیں گے اور مقابلے ہونگے۔ بھارت اور پاکستان کے دشمن بس دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔
پاکستان زندہ باد!!!!!!

epaper

ای پیپر-دی نیشن