نواز شریف کا مناسب علاج ہونے پر اپوزیشن کا سینٹ میں احتجاج: واک آئوٹ
اسلام آباد، لاہور (نیوز رپورٹر، خصوصی نامہ نگار) سابق وزیراعظم نوازشریف کوعلاج کی مناسب سہولیات نہ ملنے پر اپوزیشن نے ایوان بالا کی کارروائی سے احتجاجا واک آئوٹ کیا۔ ان کے علاج میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی۔ اگر اپوزیشن کو تحفظات ہیں تو معاملے پر ایوان کی کمیٹی بنادیتے ہیں، حکومت کا جواب۔ جمعرات کو قائد حزب اختلاف راجہ ظفرا لحق نے ایوان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ حکومت سابق وزیراعظم نوازشریف کے علاج میںکوتاہی کر رہی ہے۔ وہ دل، بلند فشار خون، شوگر اور گردوں میں پتھری کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے دل کی ایک شریان بھی لیک ہے۔ وہ کروڑوں عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ میڈیکل بورڈ نے تجویز کیا ہے کہ انہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے اور حکومت ان کو ایسے ہسپتال لے جائے جہاں ان کو علاج کی سہولیات میسر ہوں۔ ان کا حق ہے کہ ان کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جائیں۔ جمعرات کو ہمیں ان سے ملاقات کی بھی اجازت نہ ملی راستے میں فون کر کے ہمیں بتایا گیا کہ آج ملاقات نہ ہوسکے گی۔ تعین ہونا چاہیے کہ ان کے علاج میںکوتاہی کا کون ذمہ دار ہے۔ ہم اس حوالے سے احتجاجاً واک آئوٹ کرتے ہیں۔ چیئرمین نے کہا کہ حکومت کا جواب تو سن جائیں تو انہوں نے کہا کہ وہ ہم باہر بیٹھ کر بھی سن لیں گے۔ اس کے جواب میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاج کے حوالے سے کوئی کوتاہی نہیں کرے گی۔وزیراعظم عمران خان نے بھی واضح ہدایات دے رکھی ہیں۔ اگر ایوان یہ سمجھتا ہے تو اس حوالے سے ایوان کی ایک کمیٹی بھی بنائی جا سکتی ہے جو اس کا جائزہ لے سکتی ہے کہ نواز شریف کو سہولیات مل رہی ہیں یا نہیں۔ وہ ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔تاہم ان کے کیسز کے حوالے سے انہیں عدالتوں سے ہی ریلیف مل سکتا ہے۔ ان پر کرپشن کے کیسز ہیں جو ہماری حکومت کے دور میں نہیں بنائے گئے اور نہ حکومت کا ان سے کوئی تعلق ہے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے بھی ایوان کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے پنجاب حکومت کو خصوصی ہدایت کی ہے نواز شریف کو ہر ممکن علاج کی سہولیات مہیاء کی جائیں۔ حکومت ان کے علاج کے حوالے سے کوئی کوتاہی نہیں کرے گی۔ علی محمد خان اور سینٹر اعظم سواتی کو ہدایت کی کہ وہ اپوزیشن کو منا کر واپس لائیں۔راجہ ظفر الحق نے ایوان کو بتایا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بائیوگرامی لکھنے والے انگریز مصنف بھی انتقال کر گئے ہیں۔ ہم ان کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ایوان بالا نے انسانی اعضاء اور ٹشوز کی پیوند کاری (ترمیمی) بل 2018ء سینٹ کے قاعدہ 194 کے ذیلی قاعدہ (۱) کے تحت دستور (ترمیمی) بل 2018ء (آرٹیکل 27 کی ترمیم) اور دستور (ترمیمی) بل 2018ء (چوتھے جدول کی ترمیم) کے بارے میں قائمہ کمیٹی کی رپورٹس پیش کرنے کی مدت میں 60 دن کے اضافے کی تحاریک کی اتفاق رائے منظوری دے دی۔ چئیرمین کمیٹی سینٹر جاوید عباسی کی عدم موجودگی میں چئیرمین سینٹ کی ہدایت پر کمیٹی کے رکن ولید اقبال نے مذکورہ تحاریک پیش کیں۔ جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر ولید اقبال نے تحریک پیش کی کہ انسانی اعضاء اور ٹشوز کی پیوند کاری (ترمیمی) بل 2018ء کے بارے میں قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی مدت میں 11 مارچ 2019ء سے 60 روز کی توسیع دی جائے۔جس کی ایوان نے منظوری دے دی۔ولید اقبال نے تحریک پیش کی کہ قواعد ضابطہ کار و انصرام کاروائی سینٹ2012 ء کے قاعدہ 194 کے ذیلی قاعدہ (۱) کے تحت دستور (ترمیمی) بل 2018ء (آرٹیکل 27 کی ترمیم) جسے 18 دسمبر 2018 ء کو سینٹر میاں رضا ربانی کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ اس پر قائمہ کمیٹی کی جانب سے حتمی رپورٹ پیش کرنے کی مدت میں 7 مارچ 2019ء سے 60 روز کی توسیع کی منظوری دی جائے جس کی ایوان نے منظوری دے دی ۔ سینیٹر ولید اقبال نے تحریک پیش کی کہ قواعد ضابطہ کار و انصرام کاروائی سینٹ 2012 ء کے قاعدہ 194 کے ذیلی قاعدہ (1 )کے تحت ، دستور (ترمیمی) بل ، 2018 ج (چوتھے جدول کی ترمیم) جسے 18 دسمبر 2018 ء کو سینٹر سید محمد صابر شاہ کی جانب سے پیش کیا گیا مذکورہ بل کے بارے میں قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی مدت میں20 مارچ سے 60 ایام کار کی توسیع کی منظوری دی جائے جس پر ایوان نے قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی مدت میں 60 ایام کار کی توسیع کی منظوری دے دی۔سینٹ نے سینیٹر سراج الحق کی طرف سے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پرپابندیوں کے خلاف قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور عالمی برادری سے مطالبہ کہاہے کہ بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کو مسلسل پامال کرنے اور لوگوں کے جمہوری حقوق چھیننے سے روکا جائے اور جماعت اسلامی پر پابندیوں کو فوری طور پر ختم کرایا جائے۔قرارد داد میں کہا گیا ہے کہ سینٹ کا یہ ایوان مقبوضہ کشمیر میں صدر راج کی آڑ میں آرایس ایس کے مذموم ایجنڈاکی تکمیل کے لیے جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر پابندیوں،کریک ڈائون او ر انکے دفاتر سیل کیے جانے کی مذمت کرتا ہے۔سماجی اور سیاسی سطح پر عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ یہ ایوا ن وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی کے خاتمہ ،تمام سیاسی قیادت اور کارکنان کی رہائی ضبط کیے گئے اثاثہ جات کی بحالی کے لیے ہرفورم پر بھرپور آواز اٹھائے۔ قرارداد پر سینیٹر شبلی فراز،راجاظفر الحق،سینیٹر شیری رحمن ،اے این پی کی سینیٹر ستارہ ایاز اور جے یو آئی کے سینیٹر مولوی فیض الرحمن نے بھی دستخط کیے۔ راجہ ظفر الحق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ان کو شوگر، گردہ میں پتھری سمیت مختلف بیماریاں ہیں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟اور پھر ان کو کچھ دن بعد کہا جاتا ہے کہ آپ بہتر ہوگئے ہیں جیل جائیں۔ آج کروڑوں عوام ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کو علاج کا حق ملنا ؟؟؟؟؟؟؟ کے ساتھ سنگدلانہ سلوک کیا جارہا ہے۔ آئی این پی کے مطابق سینٹ میں حکومت نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن(پی آئی اے)کو روزانہ 10کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ ماہانہ ڈیڑھ سے2ارب صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی میں ادا کرنا پڑتا ہے،پی آئی اے کے پاس 32جہازوں کیلئے 479پائلٹس ہیں،بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح 1200فٹ نیچے چلی گئی ہے، زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کیلئے بلوچستان میں بڑی تعداد میں درخت لگانے کی ضرورت ہے،اسلام آباد میں صرف بائیو ڈی گریڈ ایبل شاپنگ تھیلے استعمال کرنے کی اجازت ہے ، ملک کے تمام ایئرپورٹس، بڑے تعلیمی اداروں اور شاہرائوں کے نام قومی ہیروز کے ناموں کے ساتھ منسوب کرنے کی تجویز زیر غور ہے،اسلام آباد ایئرپورٹ کا نام قائداعظم کے نام سے منسوب کرنے کی تجویز کابینہ کے سامنے رکھی گئی ہے۔ان خیالات کا اظہار وزرائے مملکت علی محمد خان اور زرتاج گل نے سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹرز کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کیا۔سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہرتاج روغانی کے سوال کے جواب میں وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یکم اپریل 2013 سے پلاسٹک کے استعمال کو ممنوع قرار دیاگیا تھا، اسلام آباد میں صرف بائیو ڈی گریڈ ایبل شاپنگ تھیلے استعمال کرنے کی اجازت ہے جبکہ وہ پلاسٹک مصنوعات جو ضائع نہ ہوتی ہوں ان کے استعمال، درآمد، تیاری کی اجازت نہیں ہے۔سینیٹر جہانزیب جمالدینی کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اپریل سے دسمبر 2018کے دوران ایران سے 896.41ملین ڈالر کی درآمدات ہوئیں جبکہ اسی عرصہ کے دوران 208.52ملین ڈالر کی برآمدات ایران کو کی گئیں، ایران پر عالمی پابندیوں کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست تجارت کا حجم نہیں بڑھ رہا،پاکستان میں برآمدات کو بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔سینیٹر بہرمند خان تنگی کے سوال کے جواب میں علی محمد خان نے کہا کہ پی آئی اے کے پاس فلائٹ کے دوران ملک کے اندر اور باہر کیٹرنگ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے وسیع نیٹ ورک ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ پی آئی اے دیگر غیر ملکی ایئر لائنز کے معیار کے مطابق کھانا فراہم نہیں کر رہا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پشاور ایئرپورٹ کی توسیع اورتجدید کا منصوبہ مئی 2019تک مکمل کرلیا جائے گا۔ علی محمد خان نے کہا کہ میں نے کابینہ اجلاس میں تجویز دی ہے کہ ملک کے تمام ایئرپورٹس، بڑے تعلیمی اداروں اور بڑی شاہرائوں کے نام قومی ہیروز کے ناموں کے ساتھ منسوب کئے جائیں، وزیراعظم عمران خان نے میری تجویز کی تائید کی ہے،اسلام آباد ایئرپورٹ کا نام قائداعظم کے نام سے منسوب کرنے کی تجویز بھی میں نے کابینہ میں دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور سے عرب ممالک میں براہ راست فلائٹس شروع کررہے ہیں۔ زرتاج گل نے کہا کہ بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح 1200فٹ نیچے چلی گئی ہے۔سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کے سوال کے جواب میں ایوی ایشن ڈویژن نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا کہ پی آئی اے کا روزانہ کا خسارہ 100ملین روپے ہے،جس میںاہم مالیاتی لاگت ہے، قرضوں پر شرح سود کی لاگت تقریباً 1.5سے 2ارب روپے فی ماہ ہے، دوسرے بڑے اخراجات میں ایندھن کی قیمتیں و دیگر اخراجات ہیں، اس کے علاوہ مزید جہازوں کی لیزنگ بھی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ایوی ایشن ڈویژن نے اپنے تحریری جواب پر ایوان کو آگاہ کیا کہ اس وقت پی آئی اے کے پاس 32جہازوں کیلئے 479پائلٹس ہیں، ایک طیارے کیلئے پائلٹس کا تناسب 12ہے۔صادق سنجرانی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کو خط لکھنے کے معاملے پر اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرلیا ، اٹارنی جنرل نے خط میں کمیٹی میں پی آئی اے ملازمین کی جعلی ڈگری کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو زیر بحث نہ لانے کا کہا تھا ۔چیئرمین سینیٹ نے پی آئی اے میں یونین پر پابندی کے معاملے کو متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا ۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل آرڈیننس 2019 ایوان میں پیش کردیاگیا متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ وقفہ سوالات کے بعد مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد اللہ کھڑے ہوگئے اور پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت چاہی مشاہد اللہ نے کہاکہ آج سینیٹ کی ایوی ایشن کمیٹی کو اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور کی طرف سے خط لکھا گیاہے کہ پی آئی اے کے جعلی ڈگریوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کمیٹی میں بحث نہیں ہوسکتی اگر بحث ہوئی تو یہ توہین عدالت ہوگی ۔ مشاہد اللہ نے کاکہ قائمہ کمیٹی کے اختیارات خط کے ذریعے سلب کیے جارہے ہیں ہم نے اٹارنی جنرل سے سفارش مانگی مگر اس کے باوجود انہوں نے خط لکھا اگر سفارش لینی ہوتی تو سینیٹ کا اپنا لاء ڈویژن موجود ہے اس سے لیتا ۔ پارلیمان کے خلاف توہین عدالت کا ایکشن نہیں لیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات ہوسکتی ہے ۔ اٹارنی جنرل کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے خط لکھے ۔ اٹارنی جنرل نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے ۔ قائمہ کمیٹی کا ایجنڈا چیئرمین کمیٹی ہی طے کرے گا۔سینیٹر نعمان وزیر نے کہاکہ پی آئی اے یونین کے لوگوں سے میری بات ہوئی اکثریت مانتے ہیں کہ ان کی ڈگریاں جعلی ہیں۔