بزدل پیٹھ پیچھے بات کرتے ہیں، وزیراعظم میں ہمت ہوتی تو اسمبلی میں جواب دیتے : بلاول
کراچی(نیوز رپورٹر، نوائے وقت رپورٹ، ایجنسیاں) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان انہیں تنظیموں کے خلاف کارروائی کی کوشش کر رہے ہیں،جن کے سہارے وزیر اعظم بنے،ان کی موجودہ کوششوں پر شک ہے، وزیراعظم اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو اپنی جماعت سے ایسے وزیروں کو نکالیں جو کالعدم تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں، بہتر ہوتا اگر ایک ہی بار احتساب ہوتا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا،افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا،پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر نیشنل ایکشن پلان پر بروقت عمل درآمد کیا گیا ہوتا تو آج دنیا میں پاکستان کی پوزیشن کچھ اور ہوتی، بھارت کے پاس پاکستان پر انتہاپسندی کے الزامات لگانے کا جواز نہ ہوتا، جبکہ ہمارے پاس دنیا کو دکھانے کے لیے انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کے ثبوت ہوتے۔برطانوی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ میں پرامید ہوں کہ اس بار کالعدم تنظیموں کیخلاف کریک ڈائون صحیح معنوں میں ہو گا۔ میری خواہش ہے کہ اس بار نیشنل ایکشن پلان پر مسلسل عمل ہو۔ اس معاملے پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کو فوری طور پر فعال کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹوزرداری نے امید ظاہر کی کہ اس بار وزیر اعظم عمران خان اپنے اس بیان پر قائم رہیں گے کہ وہ ایسے عناصر کا مقابلہ کریں گے،افسوس سے کہنا پڑے گا کہ نریندر مودی اب بھی پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پلوامہ میں نیم فوجی دستے پر ہونے والے حملے کو وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی لیے استعمال کر رہے ہیں،یہ بات شرمناک اور افسوس ناک ہے کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی ہندو انتہا پسندی کی سیاست کھیل رہے ہیں۔ اگر انڈیا کا وزیراعظم دو نیوکلیئر ملکوں کے درمیان جنگ کا ماحول پیدا کر کے، اور دہشت گردی کو سیاست کے لیے استعمال کر رہا ہے تو یقینا آئندہ آنے والے انتخابات میں انہیں اس کا فائدہ نظر آرہا ہو گا۔ہماری جماعت نے ایوب خان سے لے لر ضیاء الحق تک یہی سنا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب۔ 90 کی دہائی میں جو پولیٹیکل انجینئرنگ کی گئی اور جس طرح انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائیں گئیں، وہ سب نے دیکھا ہے۔پیپلزپارٹی کے خلاف جو سازشیں چل رہی ہیں، اس میں ملکی آئین کی پاسداری نہیں کی جا رہی،آئین کا آرٹیکل 10 اے ہر شہری کو آزاد اور شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ یہ سب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان میں انسانی اور جمہوری حقوق کا بحران ہے، ملک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام نہیں کر رہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ سپریم کورٹ ڈیم بنائے، اس کا کام انصاف فراہم کرنا ہے، پارلیمنٹ اپنا اصل مقام کھو بیٹھی ہے جسے اسے دوبارہ قائم کرنا ہوگا۔پشتون تحفظ موومنٹ سے متعلق سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ اگر پی ٹی ایم لاپتہ افراد کی بازیابی، انسانی حقوق، قانون کی بالا دستی اور پارلیمان کے حاکمیت کی بات کر رہی ہے تو انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کچھ لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، لیکن میں اس نوجوان قیادت کو امید کی نظر سے دیکھتا ہوں، شورش زدہ علاقوں سے اٹھنے والی جمہوری آوازوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کی بجائے بڑھاوا دینا چاہیے، انتہاپسندوں کی آماجگاہ فاٹا سے نوجوان آج جمہوریت،آئین و قانون کی بات کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے وزیراعظم کی چھاچھرہ میں تقریر کا جواب دیا ہے کہ وزیراعظم میں ہمت ہوتی تو میری تقریر کا جواب قومی اسمبلی میں دیتے۔ وزیراعظم میری تقریر کا جواب دینا چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں میرے سامنے دیں، وزیراعظم اپوزیشن پر تنقید والے لہجے ، حوصلے سے مودی، کالعدم تنظیموں سے متعلق بات کریں، بزدل ہمیشہ پیٹھ پیچھے بات کرتے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے سینیٹر رحمن ملک کے گھر جاکر ان سے ہمشیرہ کی وفات پر تعزیت کی۔ دونوں رہنمائوں نے ملک کی سیاسی، سکیورٹی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔