نیب کا آنگن ہی ٹیڑھا اور مختاراں مائی
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد نے اساتذہ اور ملازمین کا دیرینہ مسئلہ حل کرتے ہوئے ٹیچنگ ہسپتال میں 15 دائمی بیماریوں کی ادویات کی فراہمی کیلئے افتتاح کیا۔ اس موقع پر چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر تحسین ضمیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین نے وی سی کا شکریہ ادا کیا۔ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ کئی برسوں سے لوگ ادویات کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
٭…٭…٭
مریم نواز نے بلاول بھٹو زرداری کا شکریہ ادا کیا۔ بلاول نے کوٹ لکھپت جیل میں ان کے والد قیدی نوازشریف کی عیادت کی بلکہ ملاقات کی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں قیدی اور قائد میں کیا فرق ہے؟ نوازشریف قائد ہیں اور قیدی بھی ہیں۔
بلاول نے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ’’نوازشریف ڈیل نہیں کریں گے۔‘‘ ڈیل کرنے کا اندیشہ کیوں ہے۔ بلاول کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بلاول کے بقول ’’وہ جیل میں زیادہ پُرعزم ہیں مگر دل کے مریض کا علاج نہ کرانا تشدد کے مترادف ہے۔‘‘ میاں صاحب نے خود کہا تھا کہ وہ نظریاتی ہو گئے ہیں۔ میاں صاحب نے کہا جیل مجھے نہیں توڑ سکتی مگر یہ تماشا نہ بنائیں۔ مجھے ٹیسٹ کروا کے واپس جیل لے آتے ہیں‘ علاج نہیںکرواتے۔ ممکن ہے حکومت والے سمجھتے ہوں کہ انہیں کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ زیادتی ہے کہ ایک آدمی کہتا ہے میں بیمار ہوں‘ حکومت والے کہتے ہیں نہیں تم بیمار نہیںہو۔ کسی کے پیٹ میں درد ہے‘ اسے پتہ ہے جسے درد ہو رہا ہے۔ باہر والوں کو کیسے پتہ کہ درد نہیں ہے۔ ’’جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈ اوہناں دے پیڑ۔‘‘
ایک سادہ دوست کہنے لگے کہ میاں صاحب نے تو گاجراں نہیں کھائی ہونگی۔ اسے کون بتائے گا کہ گاجراں سے کیا مراد ہے۔ نامراد لوگ کبھی مراد نہیں پا سکیں گے۔ وہی دوست کہنے لگاکہ زرداری صاحب کو کیوں نہیں پکڑتے۔ انہوں نے بھی گاجریں تو بہت کھائی ہونگی مگر انہیں پیٹ میں درد نہیں ہوتا۔
جیل میں بلاول کی نوازشریف سے ملاقات زرداری صاحب کی سوچ ہوگی۔ وہ بہت گہرے اور کامیاب آدمی ہیں۔ یہ واقعہ ’’دو‘‘ پیغامات لئے ہوئے ہے۔ مگر نوازشریف کو اور عمران خان کو ایک ہی پیغام ملاہے۔ پیغام کیا ہے؟ آپ خود سوچیں اور حیران ہو جائیں۔ پریشان ہونے کی بھی اجازت ہے۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ یہ صدی کا بہت بڑا یوٹرن ہے۔
٭…٭…٭
ہم شاہ محمود قریشی کیلئے اب قائل ہو گئے ہیں۔ قریشی صاحب نے کہا میں جو کچھ ہوں‘ اہالیان ملتان اور این اے 156 کے ووٹرز کی وجہ سے ہوں۔ یعنی وہ حلقے کے لوگوں کے ووٹ سے جیت کے ممبر قومی اسمبلی نہ بنتے اور پھر وزیرخارجہ نہ بنائے جاتے تو کچھ بھی نہ ہوتے۔ کچھ بھی نہ کر سکتے۔ شاہ محمود قریشی آجکل بہت خوش ہونگے کیونکہ ان کیلئے پسندیدگی اور کامیابی دونوں رل مل گئے ہیں۔
ریٹائرڈ میجر جنرل غلام مصطفی نے اپنی گفتگو میں اتنی بار مودی کا شکریہ ادا کیا کہ مجھے بُرا لگنے لگ گیا۔ مجھے پتہ بھی نہیں چلا کہ ان کی باتیں پاکستان کے کس مؤقف کے حق میں ہیں۔
٭…٭…٭
مختاراں مائی ایک ماڈرن اور سمارٹ بوڑھی خاتون کے روپ میں نظر آئی۔ وہ اتنی خوبصورت ہو گئی ہے کہ اس کے ساتھ اگر پہلے کی پینڈو تصویر لگائی جاتی تو زیادہ مزا آتا۔ اس نے اپنے حالات سے بغاوت کی۔ اس کی طرح اور بھی کئی خواتین جرأت اظہار کے اس مرحلے سے گزرتی ہیں مگر کوئی خاص فرق ان کی زندگیوں میں دکھائی نہیں دیتا مگر مختاراں مائی کا لائف سٹائل بدل گیا ہے۔ وہ خود بھی بدل گئی ہے۔ ایک نئی زندگی کا آغاز اس نے کیا ہے۔ جنہوں نے اس پر ظلم کیا تھا‘ وہ اب بھی جانوروں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہونگے۔
٭…٭…٭
یہ میرے الفاظ نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے عزت مآب جسٹس گلزار احمد نے بڑے درد سے کہا ہے جس میں ایک بے بسی بھی تڑپ رہی ہے۔ کوئی ہے جو نیب کا بھی آڈٹ کرے۔ اس جملے پر بھی غور کریں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ نیب سے خدا ہی پوچھے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) بااثر افراد پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا ہے۔ کرپٹ لوگ ملک کو لوٹ کر کھا گئے۔ کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ اتنا بڑا کیس ہوا ہے اور مجرم پرکوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ مگر چھوٹے چھوٹے ملازمین کو خوامخواہ پریشان کیاجاتاہے اور گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ گھروں میں دندناتے ہوئے گھس جاتے ہیں۔ انہیں چادر اور چاردیواری کا ذرا بھر احساس نہیں۔ اگلی سماعت پر نیب پراسیکیوٹر جنرل کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا مگر نیب ٹال مٹول کر رہا ہے۔ نیب نے کہا کہ مجرموںکو طلب کیا تھا تو جسٹس گلزار نے ریمارکس دئیے۔ نیب نے ان کو چائے پلائی ہو گی اور کیک کھلائے ہونگے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انہیں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم صرف دو دن کے لیے تھا۔ جسٹس گلزار نے پھر کہا کہ نیب کو آخر تکلیف کیا ہے اور انہیں پریشانی کیا ہے۔ وہ بااثر افراد پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا کیوں ہے۔ نیب کر کیا رہا ہے۔ نیب کی ہرچیز میں گڑ بڑ ہے۔ نیب کا آنگن ہی ٹیڑھا ہے۔
یہ سارے الفاظ اخبارات اور نوائے وقت میں شائع ہوئے ہیں۔ عزت مآب جسٹس گلزار احمد نے ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دئیے ہیں۔ یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ نیب کے محکمے کو بند کیا جا رہاہے۔ نیب کے لوگ چھوٹے ملازمین کے گھروں میں گھس جاتے ہیں جبکہ پولیس کے محکمے کو بھی احتیاط برتنے کی ہدایات ہیں۔