فلک نے ان کو عطا کی ہے ’’سروری‘‘ کہ جنہیں۔۔۔
2014ء میں عمران خان کے لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کو صرف گوجرانوالہ شہر میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ ن کو گلو بٹ کا استعارہ اسی شہر سے ہاتھ آیا۔ 2017ء میں میاں نواز شریف کے مری اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ لاہور پہنچنے والے جلوس پر پورے راستہ میں صرف اسی شہر میں بے تحاشا پاکستانی کرنسی اور ڈالر برسائے گئے۔ پھر میاں نواز شریف کی گاڑی چومنے کی روایت بھی یہیں سے شروع ہوئی ۔ یہیں کچھ الیکٹ ایبلز اپنے حیثیت دار ہونے کے زعم میں مبتلا تھے ۔ ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے آنے اور پھر اسکے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے میں انکا سارا گھمنڈ جاتا رہا۔ کیا آپ کو اب بھی اسکے خالص ن لیگی شہر ہونے میں کوئی شک ہے ؟ شہر میں ن لیگی گاڑی کے دو پہئے ہیں۔ ایک غلام دستگیر خان اور دوسرا بیرسٹر عثمان ابراہیم انصاری۔انہی دو پہیوں سے یہ گاڑی رواں دواں رہتی ہے ۔ عثمان ابراہیم شرافت اور دیانت کا دوسرا نام ہے ۔ غلام دستگیر خان کے دامن پر بھی مالی آلودگی کا کوئی نشان نہیں۔ یہ دونوں اپنی اپنی برادریوں کے غیر متنازعہ’’ چوہدری‘‘ ہیں۔ کشمیریوں اور انصاریوں کے علاوہ ارائیں اور مغل برادری بھی شہر میں عددی اعتبار سے بڑی اہم ہے ۔ ان چار اہم برادریوں کے بعد برادریوں کی فہرست میں گجر ، شیخ اور ملک برادری کا نام بھی پڑھنے کو ملتا ہے ۔ 2018ء کے الیکشن میں شہر سے منتخب ہونیوالے ایک ممبر قومی اسمبلی کا تعلق کشمیر ی اور دوسرے کا انصاری برادری سے ہے ۔ شہر سے منتخب ہونے والے پانچ ممبران صوبائی اسمبلی میں سے دو کشمیری ، ایک انصاری ایک مغل اور ایک جٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ کالم میں لفظ برادری کے بار بار استعمال سے چونکیے نہیں۔ یہاں عام گفتگو میں بھی سب سے زیادہ استعمال ہونیوالا لفظ یہی ہے ۔ جب بھی کسی شخص کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ وہ کون ہے ؟ تو اس سے محض اسکی برادری کی پوچھ گچھ مقصود ہوتی ہے ۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے امیدواروں میں سے ایک مغل اور دوسرا ارائیں برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ بیرسٹر علی اشرف مغل ملک کے ایک معروف صنعتکار گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ یہ 2013ء کے الیکشن سے گوجرانوالہ شہر میں تحریک انصاف کا چراغ روشن کئے بیٹھے ہیں۔ ان کا مقابلہ سخت ہے لیکن انکی ہمت بھی جواں ہے ۔ اس نوجوان نے برسوں سے تنظیم مغلیہ پر قابض ممبر صوبائی اسمبلی کا تنظیم سے ’’ دیس نکالا ـ‘‘ کر دیا ہے ۔ دوسرے ارائیں امیدوار چوہدری محمد صدیق نے ن لیگی امیدوار کے مقابلے میں 90ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔ کاش ! اے کاش !! ان دونوں امیدواروں کے ٹکٹ کا فیصلہ ہی بروقت کر دیا جاتاتو شاید نتائج کچھ مختلف ہوتے ۔ بیرسٹر علی اشرف مغل کی محنت سے لالہ اسد اللہ پاپا پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے آئے ہیں۔ یہ اکیلے نہیں آئے بلکہ ’’ متوفی‘‘پیپلز پارٹی کے بیشتر مقامی پسماندگان بھی ہمراہ لیکر آئے ہیں۔ یہ بہت معمولی مارجن سے ہارے ہیں۔ انہیں بھی ٹکٹ بہت لیٹ جاری کر کے گھر سے ہی انکی شکست کے اسباب پیدا کئے گئے ہیں۔ پھر رضوان اسلم بٹ آتے ہیں۔ انکی پارٹی میں آمد شہر میں تحریک انصاف کی تقویت کا باعث بنی ہے ۔ رانا نعیم الرحمٰن خان کی تحریک انصاف کیلئے محنت نظر انداز کرنا کچھ قرین انصاف نہیں۔ اہل خبر خوب جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کا پہلا کامیاب جلسہ گوجرانوالہ کمپنی باغ میں ہوا تھا۔ اس جلسہ کے تمام اخراجات رانا نعیم الرحمان خان نے گرہ خود سے برداشت کئے تھے ۔ رانا نعیم الرحمان گوجرانوالہ میں تحریک انصاف کی بنیاد کی پہلی چند اینٹوں میں سے ہیں ۔ ان پانچ بندوں سمیت ارائیں اور مغل برادری کو نظر انداز کر کے شہر میں جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ تحریک انصاف کیلئے ہر گز مفید نہیں۔ مقامی حالات و واقعات سے آگاہی اورجماعت کے اصلی’’ مکینوں‘‘ سے مشاورت بہت اہم ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں شاعر لاہور کی سن لیجئے :
زمیں کیسی ہو اس پہ آسماں کیسا بنانا ہے
مکیں سے پوچھ تو لیتے مکاں کیسا بنانا ہے
کہاں تعمیر بے مقصد سے خود کو دور رکھنا ہے
ضروری ہے بہت وہ جو کہاں کیسا بنانا ہے
اس ن لیگی شہر میں تحریک انصاف کو قدم جمانے کیلئے جتنی ہوشمندی اور فراست کی ضرورت تھی ، بدقسمتی سے اس کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہمارے وزیر اعلیٰ کو غالباً گوجرانوالہ شہر کی سیاسی صورتحال سے آگاہ نہیں کیا گیا ۔ دوسری جانب ہمارے گورنر پنجاب نے ابھی تک خودپاکستان میں کوئی جنرل الیکشن جیتا ہارا نہیں۔برطانیہ سے آئے ہوئے یہ سیاستدان سنٹرل پنجاب کی سیاسی حرکیات اور یہاں برادریوں کی اہمیت سے بالکل آگاہ نہیں لگتے۔پھر یہ بھی ممکن ہے کہ بندے کے اپنے کاروباری مفادات جماعتی مفادات پر حاوی ہو جائیں۔ ان دنوں عمران خان کی زبان پر سلطان ٹیپو کا بہت ذکر ہے ۔ انکے جرنیلوں نے بھی ذاتی مالی مفادات کو ترجیح دی تھی ۔گورنر پنجاب نے گوجرانوالہ میں ایک ہی برادری کے ایک گھرانے کو دو اہم اداروں کی سربراہی بخش کر تحریک انصاف کیلئے کچھ اچھا نہیں کیا۔ دوسری جانب بھٹو کے نواسے کی جنرل ضیاء الحق کے منہ بولے بیٹے سے جیل میں ملاقات کا مقصد محض تحریک انصاف کیخلاف ایک اتحاد بنانا ہے ۔روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث ن لیگ یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب رہی ہے کہ نا اہلیت کرپشن سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔ ان غیر موافق حالات میں تحریک انصاف کو اور زیادہ ہوشمندی اور فراست کی ضرورت ہے ۔ لیکن کیا کیا جائے ؟ علامہ اقبالؒ کے شعر میں ایک لفظ کی تحریف کے ساتھ :
فلک نے ان کو عطا کی ہے ’’سروری ‘‘ کہ جنہیں
خبر نہیں کہ روش بندہ پروری کیا ہے