پارلیمنٹ کی معاونت عدالت لانا دونوں کے لئے ٹھیک نہیں: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (صباح نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سی پیک کے 24 ارب روپے اراکین قومی اسمبلی کو دینے کیخلاف درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس د یئے کہ پارلیمانی معاملات عدالت میں لانا پارلیمنٹ اور عدالت دونوں کے لیے ٹھیک نہیں، جو کام پارلیمنٹ سے ہونا چاہیے وہ کام آپ عدالت سے نہ کرائیں۔ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے 24 ارب روپے اراکین قومی اسمبلی کو دینے کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ لیگی رکن قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں سے 24 ارب روپے نکال کر ارکان اسمبلی کو فراہم کیے گئے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ رکن قومی اسمبلی ہیں، آپ کو پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس د یئے کہ یہ عدالت چاہتی ہے پارلیمنٹ کی بالادستی برقرار رہے، یہ تفصیلات آپ پارلیمنٹ کے ذریعے بھی حاصل کر سکتے تھے۔درخواست گزار رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ وزارت سے بطور رکن قومی اسمبلی تفصیلات مانگیں جو فراہم نہیں کی گئیں اور کئی روز گزر گئے مگر وزارت منصوبہ بندی نے جواب نہیں دیا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسی درخواست عدالت سنتی ہے تو پارلیمنٹ کی بالادستی پر حرف آئے گا، رکن قومی اسمبلی کے پاس بہت اختیارات ہیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس د یئے رکن اسمبلی اپنے اختیارات استعمال کرے تو وہ پارلیمنٹ کے لیے اچھا ہے۔ پارلیمان کے معاملات کو عدالتوں میں نہ لائیں، جو اختیارات رکن اسمبلی کو حاصل ہیں وہ اس عدالت کے پاس بھی نہیں ہیں۔درخواست گزار نے مزید کہا اس معاملے میں حکومت ملوث ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آئین پاکستان پر مکمل طور پر عملدرآمد ہو۔ ہم صرف وزارت سے تفصیلات مانگ رہے ہیں۔عدالت نے مسلم لیگ (ن)کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا کے دلائل سننے کے بعد ان کی درخواست قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔