جعلی اکاؤنٹس کیس: زرداری، بلاول پیش،جیالوں، پولیس میں جھڑپیں، گفتاریاں، کئی زخمی
اسلام آباد (نامہ نگار) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور شریک چیئرمین آصف زرداری نے جعلی اکائونٹس کے حوالے سے پارک لین کمپنی کیس میں نیب کی 16رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرا دیا۔ نیب کی جانب سے دونوں رہنمائوں کو سوال نامہ دیتے ہوئے دس دن میں جوابات طلب کرلیے ہیں۔ پارک لین کمپنی سمیت دیگر 2کیسز میں بھی سوالنامے دیئے گئے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے 54، 54 سوالات کے جواب مانگے گئے۔ نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ان سے تین مقدمات کے حوالے سے 2گھنٹے تک تفتیش کی۔ بدھ کو پارک لین کمپنی کیس میں نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور ان کے والد آصف علی زرداری ایک ساتھ نیب دفتر پہنچے ، دونوں 19گاڑیوں کے قافلے میں نیب دفتر پہنچے۔ جب پیپلزپارٹی کے دونوں رہنما نیب آفس میں داخل ہوئے تو ان کے ہمراہ آنے والی آصفہ بھٹو سمیت مرکزی قیادت کو ہال میں بٹھایا گیا۔ ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان منگی کی سربراہی میں نیب کی ٹیم نے دونوں رہنمائوں سے سوالات کیے، نیب نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے تفتیش کی حکمت عملی طے کرتے ہوئے دونوں رہنمائوں کو سوالنامہ فراہم کیا اور کہا گیا دونوں سے الگ الگ سوالات کیے جائیں گے جبکہ ضرورت پڑنے پر دونوں سے مشترکہ سوالات بھی کیے جائیں گے۔ بلاول بھٹو نیب کی کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوئے اور بیان ریکارڈ کرایا اور کہا امید کرتا ہوں آئندہ مجھے نیب نہیں بلائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے نیب تفتیش کے دوران آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی گئی۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو نیب کی عمارت میں الگ الگ کردیا گیا جہاں دونوں سے الگ الگ ٹیموں نے سوالات کیے۔ آصف زرداری سے 11اور بلاول بھٹو سے 5رکنی نیب کی ٹیم نے پارک لین کمپنی کے حوالے سے سوالات کیے۔ بعد ازاں نیب کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری نیب راولپنڈی میں پیش ہوئے جہاں پر نیب کی کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیمCIT) ) نے تقریباً دو گھنٹے تک متعلقہ ڈی جی کی سربراہی میں فی الحال 3 مقدمات سے متعلق سوالا ت پوچھے۔ اس کے علاوہ نیب کی کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم نے 3 مقدمات سے متعلق ایک تحریری سوالنامہ بھی دیا۔ انہیں دوبارہ نیب میں بلانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ انکوائری براہ راست چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی نگرانی میں کی جارہی ہے۔ نیب آئین اور قانون کے مطابق اپنی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے پر یقین رکھتا ہے اور کسی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر قانون کے مطابق ملک سے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے اپنا کام جاری رکھے گا۔ نیب ذرائع کے مطابق پارک لین کیس میں اربوں روپے کی ترسیلات جعلی بینک اکائونٹس سے کی گئیں، آصف زرداری پر پارک لین کمپنی میں 1989میں فرنٹ مین کے ذریعے خریداری کا الزام ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے 2009 میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کمپنی کے شیئر ہولڈر بنے، دونوں 25،25 فیصدکے شیئر ہولڈر ہیں، آصف زرداری بطور کمپنی ڈائریکٹر اکائونٹس استعمال کرنے کا اختیار رکھتے تھے جبکہ 2008میں کمپنی کی دستاویز پر آصف زرداری کے بطور ڈائریکٹر دستخط موجود ہیں، پارک لین کمپنی نے قرضوں کی مد بھی بینکوں سے اربوں روپے لیے۔ اس سے قبل اسلام آباد میں ایک کمپنی پارک لین اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب سے مبینہ طور پر زمین کی خریداری کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے گزشتہ سال 13دسمبر کو آصف علی زرداری اور بلاول دونوں کو راولپنڈی میں طلب کیا تھا البتہ صرف آصف علی زرداری عدالت میں پیش ہوئے تھے اور بلاول کی نمائندگی ان کے وکیل نے کی تھی۔ نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری کی پیشی کے موقع پر اسلام آباد کا نادرا چوک میدان جنگ بن گیا۔ پی پی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپوں کے دوران 6 اہلکار زخمی جبکہ درجنوںجیالوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔کارکنان بدھ کی صبح سے ہی نیب ہیڈ کوارٹرز کے اطراف جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ سکیورٹی کے پیش نظر نیب نے اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کو اس موقع پر حفاظتی انتظامات کرنے کی درخواست کی تھی۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نیب ہیڈ کوارٹرز تک جانے والے تمام راستوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا گیا تھا جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی اس موقع پر موجود تھی۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں کو نیب آفس جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی تو پولیس اور کارکنوں میں ہاتھا پائی شروع ہوئی، جیالوں کے پتھرائو سے 6اہلکار زخمی ہوگئے جبکہ پولیس نے کئی کارکنان کو گرفتار کرلیا۔ متعدد کارکن زخمی بھی ہوئے۔ ادھر بپھرے کارکنوں نے وفاقی وزیر عامر کیانی کی گاڑی کو بھی روک لیا اور اس پر مکے برسائے۔ اس موقع پر جیالوں نے پولیس کو پیچھے دھکیلتے ہوئے راستہ کھول دیا اور سینکڑوں کی تعداد میں نیب آفس کے سامنے جمع ہو گئے اس موقع پر پولیس نے ایکشن کرتے ہوئے نیب آفس کے سامنے سے بھی دو درجن کے قریب کارکنوں کو گرفتار کر لیا جس پر وہاں پر موجود کارکنان اور پیپلزپارٹی کی قیادت مشتعل ہو گئی، کارکنان نیب آفس کے مرکزی گیٹ پر کھڑے اپنی قیادت کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے، پی پی پی کارکنوں نے پولیس پر بھی پتھرائو کیا اور وزیراعظم عمران خان، شیخ رشید کے خلاف نعرے بازی کی۔ جیسے ہی بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری نیب دفتر کے باہر پہنچے کارکنوں نے ان کی گاڑیوں گھیرے میں لے لیا اور گاڑیوں پر پھولوں کی پتیاں پھینکیں، پولیس اہلکاروں نے لاٹھی چارج کرتے ہوئے کارکنوں کو نیب دفتر کے گیٹ سے دور دھکیلنے کی کوشش کی، تاہم انہیں قابو کرنے میں پولیس مکمل طورپر ناکام ہوگئی، اس دوران سیاسی کارکنوں اور پولیس میں تصادم ہوا جس کے نتیجے میں علاقہ میدان جنگ بن گیا۔ اپنے قائدین کے نیب دفتر سے آنے تک کارکنان وہاں موجود رہے اور سکیورٹی حصار توڑ کر نیب ہیڈ کوارٹرز میں داخل ہو کر نعرے بازی کرتے رہے کارکنان میں خواتین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ پولیس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی پیشی کے موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران 70سے زائد کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ 30کارکنان کو گرفتاری کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ تصادم کے دوران 6 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تھانہ سیکرٹریٹ کوہسار، گولڑہ اور دیگر رمختلف تھانوں میں کارکنان کو منتقل کیا گیا۔ دوسری جعلی بنک اکائونٹ کیس میں نیب نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی طلب کر لیا۔ وزیراعلیٰ سندھ کو آئندہ ہفتے نیب راولپنڈی پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق مراد علی شاہ کو ٹھٹھہ شوگر مل کیس میں طلب کیا گیا ۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں نیب کا کالا قانون ختم نہ کر کے غلطی کی یہ ہماری کمزوری تھی لیکن ہم اقتدار میں آکر آمر کا بنایا ہوا ہر کالا قانون آئین سے نکال دیں گے۔ عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت کو للکارتے رہیں گے، دہشت گردوں کے ساتھ کام کرنے، تربیت دینے اور مل کر الیکشن لڑنے والوں کو کابینہ سے فارغ کیا جائے، عوام کا معاشی قتل عام ہو رہا ہے ، اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے، ہم نے ضیاء اور مشرف کی آمریت کا مقابلہ کیا، اس حکومت کا بھی مقابلہ کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ان خیالات کا اظہاراپنی اور اپنے والد آصف زرداری کی نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان ریکارڈ کروانے کے بعدنادرا چوک پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ 2002 میں جیتے ہوئے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ چوری کرنے کے لیے نیب کو بنایا گیا، سابق امر پرویز مشرف پیپلز پارٹی کا ’پیراسائٹ‘ گروپ بنایا اور مشرف کی ’سلیکٹڈ حکومت اور اپوزیشن لیڈر‘ کو بٹھایا، یہ نیب کا ماضی ہے۔بلاول نے کہا کہ آج مجھے جس مقدمے میں طلب کیا گیا اس میں، میں کمپنی کا شیئرہولڈر اس وقت بنا جب میری عمر ایک سال سے بھی کم تھی، یہ لوگ میرا احتساب ایک سال سے کم عمر سے شروع کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہیں تو ہمیں جے آئی ٹی، نیب یا کٹھ پتلی اداروں سے نوٹس ملتا ہے لیکن ہم ان نوٹسز سے نہیں ڈرتے کیونکہ ہم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے جاں نشین ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔ وہ وزرا جو دہشت گردوں کے ساتھ کام کرتے تھے، جو کالعدم تنظیموں کے ساتھ کام کرتے تھے، جو دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپ چلاتے تھے اور جو مین اسٹریمنگ کے نام پر کالعدم تنظیموں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے تھے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تین وزرا کو فی الفور وفاقی کابینہ سے فارغ کیا جائے۔علاوہ ازیں پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زر داری نے نیب میں طلبی کو مذاق قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ اگر ہمت ہے تو احسان اللہ احسان کو طلب کریں۔ٹیررفنانسنگ اور گزشتہ انتخابات پر جے آئی ٹی بنائیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے میرے بارے میں اوپن کورٹ میں کہا تھا بلاول بے گناہ ہے جس کے کہنے پر میرا نام جے آئی ٹی میں ڈالا گیا ، نیب کی کارکردگی ہم سے ڈھکی چھپی نہیں، سیاستدانوں کا شکنجہ کسنے کیلئے نیب بنایا گیا ، نیب قوانین کی تبدیلی تک کرپشن کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، پورے ملک میں تمام اداروں میں یکساں قانون کا نفاذ چاہتے ہیں ،یکساں قانون کے اطلاق تک کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ، ظلم کے باوجود قانون کی بالادستی اور اور عدلیہ کو عزت دیتے ہیں،نیب میں مجھ سے زیادہ دیر تک سوالات نہیں کئے گئے،رویہ اچھا تھا ،پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت نہیں کریگی ،آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی،یہ نظام احتساب کا نہیں سیاسی انجینئرنگ کا ہے، پیپلز پارٹی کے کارکنان پر پولیس تشدد اور غیر جمہوری اور آمرانہ طرز عمل کی مذمت کرتا ہوں ، گرفتار کارکنوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے، جب تین وفاقی وزرا کا کالعدم تنظیموں سے رابطہ ہوگا کوئی نیشنل ایکشن پلان پر کارروائی کو سنجیدہ نہیں لے گا۔اس موقع پر نیئر حسین بخاری ، چوہدری منظوراحمد ، فرحت اللہ بابر و دیگر بھی موجود تھے۔ بلاول بھٹوزر داری نے کہاکہ پیپلز پارٹی کے کارکنان پر پولیس تشدد اور غیر جمہوری اور آمرانہ طرز عمل کی مذمت کرتا ہوں ، گرفتار کارکنوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے احتجاج کی کال نہیں دی تھی ،پیپلز پارٹی کے پرامن کارکنان یکجہتی کا اظہار کرنے آئے تھے ۔انہوںنے کہاکہ آج ان کی حکومت ہے جس نے دوسو دن اسلام آباد کو یرغمال بنایا تھا ،اس حکومت سے ہمارے کارکنوں کی آدھے گھنٹے کی یکجہتی برداشت نہیں ہوتی،اگر گرفتار کارکنوں کو آزاد نہ کیا گیا تو پیپلز پارٹی مزید اقدامات کریگی۔ انہوںنے کہاکہ نیب میں آج پیش ہوا، یہ میری لئے نئی بات نہیں ،میں جب تین سال کا تھا تب سے اپنی والدہ کے ساتھ نیب کا سامنا کرتا رہا ۔ہمارے لئے پنڈی ہی ایک پلیٹ فارم بنایا جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ جعلی اکاؤنٹس کیس کو انسانی حقوق کے نام پر چلایا گیا ،نجی رقم پر جعلی اکاؤنٹس کیس نیب کا کیس نہیں بنتا۔ انہوںنے کہاکہ الیکشن کے دوران سوموٹو کے ذریعے یہ کیس سلیکٹ کیا گیا مگر ذوالفقار بھٹو، بے نظیر قتل کیس، اصغر خان کیس کیوں سلیکٹ نہیں کیا گیا؟ ۔ انہوںنے کہاکہ نیب کی کارکردگی ہم سے ڈھکی چھپی نہیں، سیاستدانوں کا شکنجہ کسنے کیلئے یہ بنایا گیا ۔ انہوںنے کہاکہ یہ کیا مذاق ہے کہ نیب مجھے طلب کر رہا ہے ، میرے کھانے اور دھوبی کے بل کو بھی نکال لیا جاتا ہے،اگر ہمت ہے تو احسان اللہ احسان کو طلب کریں ، اگر ہمت ہے تو احسان اللہ احسان پر بھی جے آئی ٹی بنائیں، ہمیں بلایا ہے تو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کو بھی بلائیں،کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو اس لئے حراست میں لیا گیا کہ بھارتی طیارے انہیں اڑا نہ دیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ نیب افسران کا مجھ سے رویہ درست تھا ۔نیب افسران وہی کر رہے ہیں جو انہیں کہا جارہا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ اپوزیشن کے ساتھ پارلیمنٹ میں ورکنگ ریلیشن شپ اچھی جا رہی ہے ،یہ کیا منافق حکومت ہے جس کے دھرنے نے چین کا دورہ منسوخ کرایا ۔بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ ظلم کے باوجود قانون کی بالادستی اور اور عدلیہ کو عزت دیتے ہیں۔ ایک سوال پرانہوںنے کہاکہ مجھ سے پانچ منٹ تک سوالات کئے گئے جس کے بعد سوال نامہ دیا گیا۔ بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ اگر یہ پیغام دینا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں تو پھر کابینہ میں کیسے ایسے لوگ رکھ سکتے ہیں جن کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہوں۔ انہوںن ے کہاکہ حکومت اگر دہشتگردی کے خلاف سنجیدہ ہے تو وزراء کے خلاف ایکشن لے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ کالعدم تنظیموں کے خلاف حکومتی کارروائیاں صرف دکھانے کیلئے ہیں ،کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو گرفتار نہیں بلکہ انہیں حفاظتی تحویل میں لیا گیا تاکہ بھارت نشانہ نہ بنا سکے ۔ ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ اکاؤنٹس اگر فریز کئے گئے تو کیسے یقین کریں، کیا مشرف کے اکاؤنٹس کی طرح فریز کئے گئے؟ ۔ انہوںنے کہاکہ مشرف کے فریز اکاؤنٹس ہونے کے باوجود استعمال بھی ہوتے رہے۔ انہوںنے کہاکہ میں دیگر جماعتوں سے بھی بات کروں گا ن لیگ بھی نظریات پر یقین رکھتی ہے۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ فوجی عدالتوں میں دو بار توسیع کی گئی جو ختم ہو گئی،حکومت کی جانب سے فوجی عدالتوں میں توسیع پر رابطہ نہیں کیا گیا تاہم پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت نہیں کریگی ۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی،یہ نظام احتساب کا نہیں سیاسی انجینئرنگ کا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی الزام ہے تو وہ غیرجانبدار تحقیقات کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کیس کا تعلق کراچی سے ہے لیکن دانستہ طور پر کیس کو راولپنڈی منتقل کیا گیاہم کراچی کے کیس کو راولپنڈی منتقل کرنے کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔بلاول نے کہاکہ یہ کیس نیب کا نہیں بنتا، بینک اکاونٹس کے سوال ہیں وہ کیسے نیب کا کیس بنتا ہے؟ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نیب کے سوالنامے کا جواب وکلا سے مشاورت کے بعد دوں گا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نیب قوانین میں تبدیلی نہیں لاسکے جس کی ذمے داری قبول کرتے ہیں، میاں صاحب کی حکومت میں کوشش کی لیکن ہماری بات نہیں مانی گئی۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ نیب سے خوش تھے وہ بھی نیب کا شکار بن گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر پولیس تشدد، گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے سیاسی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ قوم کو وقت بھی یاد ہے جب اسلام آباد کے ڈی چوک میں126دن تک دھرنا دینے والوں نے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کیا تو انہیں روکنے والا کوئی بھی اہلکار موجود نہیں تھا، آج وہی لوگ سیاسی مخالفین کو بزور شمشیر دبانے کی کوشش میں لگے ہیں۔