نامور مصور اور خطاط بشیر موجد کی دنیا سے رخصتی
17 مارچ کو نامور مصور اور خطاط بشیر موجد صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انکی موت سے دس دن قبل میری ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اورتقریباً دوگھنٹے تک ہم دونوں اپنے ماضی کو یاد کرتے رہے۔ بشیر موجد اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ اپنے بستر سے اٹھ نہیں پا رہے تھے لیکن جب میں رخصت ہونے لگا تو انہوںنے بستر سے بمشکل اٹھ کر مجھے گلے سے لگا لیا اور رخصت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہر آٹھ دس دن بعد آپ آ جایا کریں۔ میری زندگی کاکوئی بھروسہ نہیں اس طرح موت تک آپ سے ملاقات ہوتی رہے گی اور ہم دونوں اپنے خوبصورت ماضی کو یاد کرتے رہیں گے۔ مورخہ 17 مارچ کی صبح میں نے بشیر موجد کے بیٹے شہزاد موجد کوفون کیا اور بتایا کہ آج میں موجد صاحب سے ملاقات کے لئے آنا چاہتا ہوں تو اس نے زور زور سے روتے ہوئے بتایا کہ آج صبح کی نماز کے وقت بشیر موجد کا انتقال ہوگیا ہے۔ انکی نماز جنازہ عصر کی نماز کے بعد پڑھائی جائے گی۔ آپ انکے آخری دیدار اور نماز جنازہ پڑھنے کیلئے آ جائیں۔ یہ دردناک اطلاع ملتے ہی میرے ہاتھ سے میرا موبائل فون گر گیا اور میں نے پائوں کے بل بیٹھ کر رونا شروع کر دیا۔ میری بیگم نے مجھے اس حال میں دیکھا تو پوچھنے لگی کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے میں نے اسے اپنے کمرے میں لگی ہوئی ایک بڑی رنگین مصورانہ خطاطی ’’اللہ اکبر‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ نامور خطاط اور مصور بشیر موجد کا انتقال ہو گیا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب بشیر موجد سے میری آخری ملاقات ہوئی تو میری بیگم بھی میرے ہمراہ تھی۔ یہ سنتے ہی میری بیگم کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اور اس نے کہا کہ جنازے پر جاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے جانا۔ یہ بات سن کر مجھے وہ ملاقات یاد آ گئی جب میں پہلی مرتبہ چھیالیس سال قبل بشیر موجد سے ملا تھا۔ یہ ملاقات مرزا ادیب صاحب نے کروائی تھی۔ اسی ملاقات سے ہماری اس پرخلوص دوستی کا آغاز ہوا۔ جو موجد صاحب کے وصال پر ملال تک قائم رہی۔ میں اور میری بیگم دوپہر کو مرحوم موجد کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ آدھے گھنٹے میں ہم وہاں پہنچ گئے۔ موجد صاحب کے بیٹے نے روتے ہوئے ہمیں اندر بلا لیا۔ کمرے میں بشیر موجد کا مردہ بدن ایک پلنگ پر جلوہ نما تھا۔ موجد کی بیوہ ان کے قریب ایک کرسی پر بیٹھی رو رہی تھی جبکہ ان کی بیٹیاں ان کا ماتھا۔ ان کے ہاتھ اور انکے پائوں کو بار بار چوم رہی تھیں۔ میں نے بھی دوستی کا رشتہ نبھاتے ہوئے انکے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور پھر باہر آ گیا۔ جہاں انکے جنازے میں شرکت کیلئے دوسرے بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا، پھر میں نے حاضرین پر نگاہ ڈالی تو بہت سے مشہور لوگ موجود تھے اچانک میری نگاہ بختیار علی سیال پر جا رکی۔ یہ نامور وکیل اور سابق جج بھی رہے ہیں۔ انکی کرسی کے ساتھ ہی ایک کرسی خالی تھی۔ میں اٹھ کر انکے پاس بیٹھ گیا اور دریافت کیا کہ آپکی بشیر موجد صاحب سے تعلق کس طرح بنا تھا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ موجد صاحب نے میری بیٹی کو مصورانہ خطاطی سکھائی تھی۔ یہ سن کر مجھے مرحوم کی مصورانہ خطاطی یاد آنے لگی۔ موجد صاحب نے ایک کتاب ’’بولتے رنگ سوچتی لکیریں،، کی شائع کی تھی۔ جس میں انہوں نے اپنی مصورانہ زندگی کی نقشہ کشی بھی کی ہے اور بڑے بڑے نامور 44 ادیبوں شاعروں کی اپنی مصورانہ مہارت پر آراء بھی شامل کی ہیں۔ چند نام پیش خدمت ہیں۔ مرزا ادیب احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، احسان دانش، حبیب جالب ، ساحر ہوشیار پوری، سوبھا سنگھ (انڈیا) امروز اندرجیت، حکیم جمال نبی سویدا، ابراہیم جلیس، خاطر غزنوی، ظہیر کاشمیری، محمد طفیل، ڈکٹر وحید قریشی، حفیظ جالندھری مظفروارثی شامل ہیں۔ میرا ایک مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ اس کتاب میں موجد صاحب کے بنائے ہوئے قرآنی آیات کے فن پارے اور اللہ اور اسکے رسول کے اسمائے گرامی کو منفرد انداز میں نقش کیا گیا ہے۔ ایک تصویر میں بشیرموجد نوائے وقت کے مدیراعلیٰ مجید نظامی کو بھی اپنی خطاطی کی ایک پینڈنگ پیش کر رہے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حکومت کی طرف سے موجد صاحب کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیاتھا۔ موجد صاحب نے مصوری کے ساتھ ساتھ پانچ کتب بھی تصنیف کی ہیں۔ ساحر ہوشیار پوری نے لکھا کہ موجد صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی یہ مجھے یاد نہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو صدیوں سے نہیں بلکہ قرنوں سے جانتے پہچانتے ہیں۔ ساحر صاحب نے اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے آخر میں یہ شعر تحریر کیا ہے۔
وہیں جھک گئی ہے جبین خلوص
محبت کا بندہ جہاں مل گیا
شاید شیدائی نے لکھا ہے کہ موجد کا سحر انگیز انداز صدیوں پرانامحسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون کا اختتام اس شعر پر کیا ہے۔
موجد کے فن کو دیکھ کر احساس یہ ہوا
رنگ اور بھی ہیں مانی و بہزاد سے پرے
جب نماز جنازہ کے بعد موجد کو قبر میں اتارنے کاوقت آیا تو ان کا بیٹا قبر میں اتر گیا اور قبر میں بیٹھ کر زور زور سے رونے لگا۔ کچھ دیر بعد جن لوگوں نے موجد صاحب کا مردہ بدن اٹھایا ہوا تھا انہوں نے بیٹے سے درخواست کی کہ وہ قبر سے باہر آ جائے لیکن بیٹے نے قبر میں کھڑے ہو کر والد کی نعش کو قبر میں اتارا اور پھر باہر آ گیا۔ پھر لوگوں نے قبر پر مٹی ڈال دی اور اس کو پھولوں سے سجا دیا۔ اس سارے عرصہ سے میں راقم الحروف بھی روتا رہا۔
یاد آتیں ہیں آج بھی ان کی پیاری پیاری باتیں
اب تک دل میں رقصاں ہیں اپنے موجد کی یادیں