• news
  • image

کیا یہ المیہ بھی ہو گا؟

زکوٰۃ فنڈ سے مدد کا جھانسہ دیکر غریب اور مستحق لوگوں کو بیوقوف بنانے کی بات ہو یا بے نظیر انکم سپورٹ سکیم کا فراڈ ہو، دونوں معاملات میں سادہ لوح اور ضرورت مند افراد سے تمام تر دعووں اور طفل تسلیوں کے باوجود زیادتی ہو رہی ہے ۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں جتنی رقوم مختص کی جاتی ہیں، وہ مکمل طور پر خرچ نہیں ہوتی ہیں۔ جن شعبوں میں غریب اور مستحق افراد کو مدد کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے، ان کی نفی کا پہلو ہر دور میں نمایاں رہا ہے۔ زکوٰۃ فنڈ اور بے نظیر انکم سپورٹ سکیم سے عموماً گھریلو اخراجات پورے کرنے میں مدد کے پہلو کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ اس طرح مریضوں کو ادویات کی فراہمی اور مختلف ٹیسٹوں کے معاملات میں مددکا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بچیوںکی شادی کیلئے بھی سرکاری تعاون شامل ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ غریب، ضرورت مند اور مستحق افراد کو جتنی تھوڑی بہت مالی مدد دی جاتی ہے، اس میں جانبداری، سیاسی اور سماجی وابستگی اور سفارش کا عمل دخل نمایاں طور پر رہتا ہے۔ چنانچہ ضرورت مندوں، غریبوں اور مستحق لوگوں کی بڑی تعداد زکوٰۃ فنڈ اور بے نظیر انکم سپورٹ سکیم سے صحیح معنوں میں مدد حاصل نہیں کر پاتے۔ بنیادی طور پر غریب اور مستحق افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کروڑوں خاندانوں کے افراد مالی تعاون اور مدد کیلئے کوشاں رہتے ہیں، اتنی بڑی تعداد کے مقابلے میں حکومت کی طرف سے جو رقوم منظور کی جاتی ہیں، وہ ایک چوتھائی ضرورت مندوں کیلئے ہی با مشکل معاون ثابت ہوتی ہے۔ المیہ ہے کہ ہر دور حکومت میں مالی مدد اور تعاون کے اس سلسلے کو سیاسی مقاصد، مقامی اور سماجی سطح پر تعلقات کی بنیاد پر اپنے پسندیدہ ضرورت مند، غریب اور مستحق لوگوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ سارا سال لوگ اپنے تعلقات اور سفارشی حوالوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مالی تعاون اور مدد کیلئے بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اس مالی مدد اور تعاون کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے متعلقہ اہلکاروں سے لے کر بعض بااختیار سیاسی اور انتظامی عہدیدار بڑے اہتمام اور احتیاط کے ساتھ رشوت وصولی بھی کرتے ہیں،یعنی غریب اور مستحق لوگوں سے رشوت وصول کرنا اپناحق سمجھتے ہیں۔ رشوت کے بغیر ان ضرورت مندوں کو سرکاری امداد نہیں ملتی۔ بے یقینی اور حق تلفی کے اس ماحول میں ضرورت مند غریب اور مستحق لوگ زکوٰۃ فنڈ اور بے نظیر انکم سپورٹ سکیم سے اپنے لیے مالی مدد حاصل کرنے کیلئے مارے مارے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سفارش ، خوشامد اور رشوت کے ذریعے حکومت کی طرف سے ملنے والی مدد کا حصول یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے ضرورت مندوں کو طفل تسلیاں دے کر انتظار کی اذیت کا شکار بنایا جاتا ہے۔ جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں۔ انہیں یہ کہہ کر ٹرخایہ جاتا ہے کہ آپکا کیس ’’اوپر‘‘ بھیج دیا ہے۔ منظوری ہونے پر آپکو آگاہ کر دیا جائیگا۔ اس چکر میں ہزاروں لاکھوں گھروں کے لوگ سارا سال پریشان رہتے ہیں۔ وہ لوگ، جن کی سیاسی یا سماجی سفارش ہو، وہ رشوت دے دیں، اُن کا کام ہوجاتا ہے اور باقی لوگ حیلوں، بہانوں جھوٹے وعدوں سے ٹرخا دیئے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے کچھ لوگ کوئی نہ کوئی شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ متعلقہ اہلکار اور افسران کی بے حسی کی انتہا کہہ لیں کہ وہ سفارش خوشامد اور رشوت کے باوجود کام نہیں کرتے اور مستحق و غریب لوگ مارے مارے پھرتے ہیں۔ حکومتی امداد کیلئے ترستے رہتے ہیں ان معاملات میں فراڈ اور ھیرا پھیری کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں لوگوں کو موبائل فون پر’’امداد کی منظوری‘‘ کا جھانسہ دے کر فراڈ کرتے اور لوٹنے کا سلسلہ پرانا ہو چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ غرض مند دیوانہ، بے چارے غریب اور مستحق لوگ مالی مدد کے چکر میں لٹتے رہتے ہیں، جب ان سے واردات ہو جاتی ہے تو بے بسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ کر جھولیاں پھیلا کر فراڈیوں اور حکومتی نظام کی خرابی کو بد دعائیں دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
وطن عزیز میں عام انتخابات ہوئے اور نئی حکومتیں قائم ہو کر اپنا اپنا کام کر رہی ہیں۔ غریبوں اور مستحق افراد کیلئے حکومت پنجاب نے زکوٰۃ فنڈ کے حوالے سے چار ارب روپے کی منظوری دی اور یہ رقم متعلقہ محکمے کے اکائونٹ میںمنتقل کر دی گئی ۔ اس محکمے میں صرف یہی کام ہو رہا ہے کہ سرکاری اہلکار اور افسران تنخواہیں وصول کر رہے ہیں غریب اور مستحق لوگوں کو مالی مدد دینے کیلئے کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ بتایا گیا ہے کہ محکموں کے متعلقہ حکام نے ایک سے زائد مرتبہ زکوٰۃ کمیٹیوں کی تشکیل کیلئے اعلیٰ حکام کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مختص کئے گئے چارارب روپے غریبوں اور مستحق افراد میں تقسیم نہیں ہو سکیں گے۔ رقوم کی بروقت تقسیم نہ ہونے سے فنڈز کی مدتِ استعمال ختم ہو جائے گی اور ساری رقم وفاقی حکومت کی تحویل میں واپس چلی جائیگی۔اگر خدانخواستہ یہ رقوم ان لوگوں کو نہ مل سکیں تو اس محرومی سے ان کیلئے جو تکالیف اور مسائل پیداہو رہے ہیں، ان کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اس مجرمانہ کوتاہی اور غفلت کے ذمّے داران کیخلاف کوئی کارروائی ہو گی؟ یہ سوالیہ نشان اسی طرح حکمرانوں کا منہ چٹراتا رہے گا۔ اگر آپ درد مند دل رکھتے ہیں تو ذرا سوچئے.....

epaper

ای پیپر-دی نیشن