جماعت اسلامی ۔سید مودودیؒ سے سراج الحق تک
کسے معلوم تھا ’’ ننگے پائوں‘‘ سکول جانے والا طالبعلم نصف صدی بعدپاکستان کی سب سے زیادہ منظم دینی و سیاسی جماعت کا سربراہ بن جائے گا دیر کے پہاڑوں میں ننگے پائوں سکول جانے والے طالبعلم سے جب اس کے ساتھی پائوں میں جوتا نہ ہونے کے بارے میں استفسار کرتے تو اس کا جواب یہ ہوتا ’’کوئی ہے جو میرے ساتھ ان نوکیلے پتھروں پر ننگے پائوں چل سکے ۔ دیکھو میں ان پر چل سکتا ہوں ‘‘ اس طالبعلم کو ہر روز اپنے ساتھی طالبعلموں کے اس سوال کا سامنا کر نا پڑتا ایک روز زچ ہو کر اس نے اپنی ماں سے جوتا خرید کر دینے کی فرمائش کر دی تو غربت کے ہاتھوں بے بسی کی علامت ماں نے پیار سے اس کے سر کی ٹوپی ’’ٹیڑھی ‘‘کر کے رکھ دی اور پیار سے کہا کہ‘‘آج کے بعد کوئی طالبعلم تمہارے پائوں کی طرف نہیں دیکھے گا سب ہی تمہاری ٹیڑھی ٹو پی کی طرف دیکھا کریں گے‘‘ ماں کی سر پر رکھی ٹیڑھی اس کی شناخت بن گئی آج یہی ٹیڑھی ٹوپی والا سراج الحق دوسری بار جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہو گیا ہے وہ بچپن میں بستہ نہ ہونے کے باعث 25روز تک سکول نہ جا سکا بین الا قوامی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے آیا تو اتنا زاد سفر نہ تھا کہ وہ رات کسی ہوٹل میں بسر کر سکے اس نے آبپارہ میں قصاب کے تھڑے پر رات کی نیند پوری کی ۔ آج اسی ’’ٹیڑھی ٹوپی ‘‘ والے کے لئے امراء و غربا سب ہی فرش راہ ہیں لیکن وہ جماعت اسلامی کے دیگر امراء کی طرح عام آدمی کی طرح رہنا پسند کرتا ہے جب وہ خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تھا تو سرکاری گاڑی اور وسائل استعمال کرنے کی بجائے عام بس پر سفر کرنے کی مثال قائم کی عام بس پر سوار ہو کر لاہور جاتا پھر وہاں سے منصورہ تک رکشہ کی سواری استعمال کرنا ان کا معمول رہا ۔ خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے بیرون ملک دورے پر گئے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے قیام کا انتظام جس فائیو سٹار ہوٹل میں کیا گیا ہے اس پر قومی خزانے سے لاکھوں روپے خرچ ہوں گے تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت ایک مسجد میں جا ٹھہرے ۔جماعت اسلامی ، سماجی لحاظ سے ایک قدامت پسند دینی جماعت تصور کی جاتی ہے جو پاکستان کو سیاسی و قانونی پراسس سے اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لئے کوشاں ہے لیکن یہ سوال سیاسی حلقوں میں آج یہ سوال پوچھا جاتا ہے کم وبیش 78سالہ جدو جہد کے باوجود جماعت اسلامی اپنے مقاصد کے حصول میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی ؟ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کا حجم بڑھنے کے باوجود اس کا ووٹ بینک کم ہو رہا ہے ؟ میرے اس سوال کا جواب جماعت اسلامی کے کسی رہنما کے پاس نہیں ۔ لیاقت بلوچ میرے زمانہ طالبعلمی سے دوست ہیں ان کی قربت سے جماعت اسلامی کو پہچاننے کا موقع ملا ہے انہیں بھی کسی سوال کا جواب نہ دینے کا ملکہ حاصل ہے پچھلے دنوں امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم کی ’’تقریب رونمائی ‘‘ ہوئی تو میں نے ان سے سوال کیا کہ ’’ہمیں سید مودودیؒ کی ہی جماعت اسلامی کب لوٹا ئیں گے؟ ‘‘ تو انہوں نے دلچسپ جواب دیا کہ ’’ آج بھی جماعت اسلامی سید مودودی ؒ کی ہی جماعت ہے ان کے دور میں خیبر پختونخوا سے جماعت اسلامی کے 12ارکن تھے 6ار کان کی رکنیت معطل کرنے سے صوبہ میں جماعت ہی ختم ہو گئی تھی آج اللہ تعالی کے فضل و کرم سے یہ تعدا د39ہزار سے زائد ہے ۔ جب سید ابوالاعلیٰ مودودی نے1941 ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تو اس وقت اس کے ارکان کی تعداد 75تھی آج اس کے ارکان کی تعداد ہزاروں اور ممبرز کی لاکھوں ہے۔ کسی جماعت کے پاس کارکنوں کا اتنا بڑا کیڈر نہیں لیکن یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ جماعت اسلامی کوجہاں ’’اتحادوں‘‘ کی سیاست نے کچھ فائدہ پہنچایا ہے وہاں اس کی شناخت گم ہو کر رہ گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے آج جماعت اسلامی نے متحدہ مجلس عمل میں ہوتے ہوئے بھی آئندہ انتخابات ’’ترازو‘‘ کے نشان پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے ۔جماعت اسلامی کے80فیصد ارکان جماعت اسلامی کی انفرادیت برقرار رکھنے کے حق میں تھے لیکن جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنے کے حق میں فیصلہ دیا ۔میں نے جماعت اسلامی میں میاں اسلم سے زیادہ متحرک کوئی شخصیت نہیں دیکھی جو ہر انتخا ب ہارنے کے بعداگلے روز نئے انتخاب کی تیاری شروع کر دیتی ہے جماعت اسلامی کوخطہ پوٹھوہار میں اپنی شکست کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ پنجاب میں جماعت اسلامی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قریب تر ہونے کی کوشش کرتی رہی لیکن خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف کے ’’سحر ‘‘ میں مبتلا رہی لیکن دونوں جماعتوں نے ’’مغرب‘‘ کو خوش کرنے کے لئے جماعت اسلامی سے فاصلہ برقرار رکھا ۔
پانامہ پیپرز میں جماعت اسلامی نے پاکستان تحریک انصاف کو تو سیاسی فائدہ پہنچا دیا لیکن اس کے بدلے پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو کچھ بھی نہیں دیا اب جماعت اسلامی پاکستان مسلم لیگ (ن) سے بھی اتنی دور ہو گئی کہ اب مستقبل قریب میں ان کے قریب آنے کا کوئی امکان نہیں رہا ۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) جو اپنے آپ کو ’’دائیں بازو‘‘ کی جماعت تو کہلانے سے شرماتی ہے لیکن ’’ دائیں بازو ‘‘کے ووٹ بینک پر ہاتھ مار لیتی ہے ۔جہاد افغانستان میں اسے امریکہ کا آلہ کار ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن جماعت اسلامی نے امریکی پالیسیوں کی جس قدر مخالفت کی کسی اور جماعت کے حصہ میں نہیں آیا لیکن یہ جماعت اسلامی کی بد قسمتی ہے کہ وہ عام انتخابات میں عوام میں’’ امریکہ دشمن جذبات ‘‘کو کبھی ’’کیش‘‘ نہیں کرا سکی ۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ،جماعت کے بانی اور پہلے منتخب امیر تھے جو1941ء تا 1972ء انتخاب کے ذریعے جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوتے رہے۔ان کے بعد میاں طفیل محمد ؒ 1972ء تا 1987 ء امیر جماعت منتخب ہوتے رہے۔ان کے بعد قاضی حسین احمد ؒ 1987ء 2009ء تک باقاعدہ انتخاب کے ذریعے امیر جماعت منتخب ہوتے رہے۔اسی طرح سید منورحسن بھی 2009ء سے 2014ء کے پانچ سال کے لئے امیر جماعت منتخب ہوئے ۔2014ء میںانتخاب کے ذریعے پانچ سال کے لئے سراج الحق امیر جماعت منتخب ہوئے ۔ میں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سے لے کر سراج الحق تک جماعت اسلامی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے میں نے صحافت کا آغاز روزنامہ جسارت سے کیا ہے اس لحاظ سے سید ابوالا علیٰ مودودیؒ کی سیاسی سرگرمیاں کور کرنے کا موقع ملا ہے مولانا فتح محمد مرحوم جیسی بلند پایہ شخصیات کی شفقت حاصل رہی ہے ۔ جماعت اسلامی کی امارت میاں طفیل محمد جیسی درویش صفت شخصیت پاس رہی جن کے بارے میں مری کی ممتاز سیاسی شخصیت شفاالحق نے بتایا کہ’’ جب انہوں نے پیوند لگی شیروانی پہنے اس درویش صفت شخص کو اپنے جوتے پالش کرتے دیکھا تو اس روز میری زندگی انقلاب آگیا اور جماعت اسلامی کا ہو کر رہ گیا‘‘ ۔ جماعت اسلامی کی امارت کے انتخاب کا پراسس تین ماہ پر مشتمل ہوتا ہے ۔ سراج الحق کو دوسری بار جماعت اسلامی کا امیر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے ان سے ایک ہی سوال ہے وہ عوام کو سید مودودیؒ کی جماعت اسلامی کب لوٹا ئیں گے؟ ۔