اسلام آباد ہائیکورٹ نے گھوٹکی کی نومسلم بہنوں کو تحفظ کے لئے سرکاری تحویل میں دے دیا
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سندھ سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی لڑکیوں کو سرکاری تحویل میں دیدیا ۔منگل کے روز لڑکیوں روینا اور رینا کی جانب سے دائر تحفظ فراہمی کی درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی ۔وکیل درخواست گزارن عمیر بلوچ ایڈووکیٹ نے عدالت میں موقف اپنایا کہ میرے موکل نے قانون کے مطابق اسلام قبول کیا، میڈیا میں دونوں بہنوں کے متعلق منفی پروپیگنڈا کیا گیا،20 مارچ کو دونوں کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا تھا، تھانہ گھوٹکی میں لڑکیوں کے بھائی کی جانب سے ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ وکیل درخواست گزار نے استدعا کی کہ دونوں لڑکیوں کی حفاظت یقینی بنانے کا حکم دیا جائے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اقلیتوں کے حقوق آئین پاکستان میں درج اور قرآن پاک سے واضح ہیں، اس مقدمے کوبہت محتاط اندازمیں دیکھنے کی ضرورت ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کوتحفظ حاصل ہے۔ نبی اکرمؐ کے فتح مکہ اور خطبہ حجتہ الوداع پر دو خطاب موجود ہیں جس میں اقلیتوں کے حقوق پر بات کی گئی اور وہ دونوں خطاب اقلیتوں کے حوالے سے ہمارے لیے قانون و آئین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقت نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے بھی اس معاملے پر انکوائری کا حکم دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم نے بھی شفاف تحقیقات کا حکم دیا تھا، اس کی رپورٹ کب تک آئے گی اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری بھی اس معاملے کو دیکھ رہی ہیں جس پر حکومتی نمائندے نے جواب دیا کہ وہ ایک ہفتے میں معاملے پر انکوائری مکمل کرلیں گے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو کہا کہ فائنل رپورٹ آنے تک یہ لڑکیاں آپ کی مہمان ہیں اور کہا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو کہیں کہ گارجین جج کا تقرر کریں۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ لڑکیوں کی حفاظت کی ذمے داری اسلام آباد انتظامیہ اور وفاقی حکومت کی ہوگی اور ایس پی رینک کی خاتون پولیس افسر ان کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور ہوں گی۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق مکمل طور پر محفوظ ہیں دیگر ممالک سے زیادہ ہیں۔ معزز جج نے حکم دیا کہ ڈی سی صاحب، حتمی رپورٹ جمع ہونے تک یہ آپ کے مہمان ہونگی، لڑکیوں کو شیلٹر ہوم منتقل کر دیا جائے، وفاقی حکومت ان کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ دونوں بہنوں کے شوہر اسلام آباد انتظامیہ کے مہمان ہونگے۔ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی اجازت کے بغیر لڑکیاں اسلام آباد سے باہر نہیں جاسکتیں۔عدالت نے کیس کی سماعت دواپریل تک ملتوی کردی۔ بعدازاں پولیس نے دونوں نو مسلم لڑکیوں کو پولیس کی تحویل میں دارالامان منتقل کر دیا۔ یاد رہے کہ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ دونوں بہنوں نے زبردستی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا، تحفظ فراہم کیا جائے۔ مسلمان ہونے والی روینا کا نام آسیہ بی بی رینا کا شازیہ رکھا گیا ہے۔ روینا کا نکاح صفدر جبکہ رینا کا برکت سے ہوا ہے۔