• news
  • image

شریف برادران کیلئے نرمی : کاروان بھٹو

پنجاب پاکستان کا بڑا صوبہ ہے تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب کی اشرافیہ پاکستان کی ریاست پر ہمیشہ بالادست رہی ہے کیونکہ پنجاب کو پاکستان کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے - یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی اشرافیہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں امتیازی سلوک کی مستحق سمجھی جاتی ہے- اگر پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے لیڈروں کے بارے میں ریاستی اداروں کے رویے کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ پنجاب کے شریف برادران سے اکثر اوقات نرم سلوک کیا گیا ہے پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی لیڈر میاں نواز شریف کو عدلیہ کی جانب سے دیا جانے والا حالیہ عارضی ریلیف بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے- پاکستان کے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جناب جسٹس سجاد علی شاہ اور جناب جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل ایک بینچ نے میاں محمد نواز شریف کو طبی بنیادوں پر چھ ہفتے کی عارضی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا ہے جو ہر چند کے مشروط ہے البتہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی لہذا اس فیصلے کو غیر معمولی تصور کیا جا رہا ہے اس فیصلے کا مقصد میاں محمد نواز شریف کو اپنے علاج کے لئے پرسکون ماحول فراہم کرنا ہے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ مجموعی طور پر افسوسناک ہی رہی ہے قانون کا اطلاق مساوی نہیں کیا جاتا رہا حالانکہ تصور یہی کیا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے مگر کئی عدالتی فیصلوں سے یہ ظاہر ہو چکا کہ قانون اندھا نہیں ہوتا اور وہ چہرے دیکھ کر متاثر بھی ہو جاتا ہے- خیبر سے کیماڑی تک یہ تصور بڑا پاپولر ہے کہ شریف برادران کو ریلیف دینے کے لئے ریاست کے طاقتور ادارے رضا مند ہو چکے ہیں- میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی خاموشی اسی رضامندی کا ثبوت ہے - ریاست اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی دوسرے صوبوں کی طرح سیاسی انتشار اور خلفشار کا شکار ہو جس سے طاقتور اداروں کے کندھوں پر امن و امان کے قیام اور قومی سلامتی کے تحفظ و دفاع کا بوجھ مزید بڑھ جائے- شریف خاندان کم و بیش تیس سال تک پنجاب پر حکمرانی کرتا رہا ہے اور اس قدر اثرورسوخ کا مالک بن چکا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا- پاکستان کے تمام طاقتور ریاستی اداروں میں شریف خاندان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے بااختیار افسران بیٹھے ہیں جوان کو ریلیف دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں - پاکستان کے قوانین میں سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ جب بھی حکمران اشرافیہ قانون کی زد میں آئے تو ان کو اس میں سے نکالنے کا راستہ موجود ہو - میاں نواز شریف کے احتجاج کی وجہ سے ریاست کے ادارے انتظامیہ عدلیہ اور افواج پاکستان دباؤ کا شکار تھے ان کو یہ خوف تھا کہ خدانخواستہ اگر میاں نواز شریف صاحب کو جیل میں کچھ ہو گیا تو ریاست اور سیاست عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے- مسلم لیگ نون کے لیڈروں نے اعلی عدلیہ پر اس حد تک تنقید کی تھی کہ ان کے کئی لیڈروں کو توہین عدالت کے جرم میں سزاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑا لہذا اس منفی پروپیگنڈے کے اثرات کو دور کرنے کے لئے ضروری تھا کہ میاں نواز شریف کو ریلیف دیا جائے جس کی قانون میں گنجائش موجود تھی عدلیہ قبل ازیں جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر محمد عاصم کو ریلیف دے چکی ہے مگر وہ ملزم تھے اور ابھی ان کو سزا نہیں ہوئی تھی- لاہور ہائیکورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا ہے اس طرح مسلم لیگ نون کے کارکنوں کے لئے خوشی اور مسرت دوچند ہو گئی ہے اسے شریف برادران کی انگڑائی بھی کہا جاسکتا ہے اور جو لوگ یہ کہتے تھے کہ شریف برادران کی سیاست ختم ہو گئی ہے ان کو اپنی رائے پر نظرثانی کرنی پڑے گی بریگیڈئیر ریٹائرڈ اسد منیر کی خودکشی نے بھی اس ضمن میں کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے نیب کا ادارہ خود بھی دباؤ میں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے 4 اپریل سے پہلے یہ مناسب سمجھا کہ پی پی پی کے جیالوں کا خون گرم کرنے کے لئے سیاسی سرگرمی کی جائے تاکہ 4اپریل کو گڑھی خدا بخش میں جیالوں کا قابل ذکر ہجوم اکٹھا کیا جاسکے اور ریاست کے اداروں اور عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ مشکلات کے باوجود پی پی پی سندھ میں آج بھی زندہ اور تابندہ ہے- 27 دسمبر محترمہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت سے پہلے بھی آصف علی زرداری نے سڑکوں پر ریلی نکالی تھی تاکہ جیالوں کا لہو گرمایا جائے اور اور وہ شہیدوں کی قبروں کے ساتھ جڑے رہیں- پی پی پی کے لیڈروں کے بیانیے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کے شہیدوں کی قبروں کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی سیاسی اثاثہ نہیں ہے جس سے وہ عوام کو مطمئن کرسکیں پی پی پی کے لیڈروں کے خلاف جو بھی مقدمات قائم ہوئے ان کا کوئی تعلق موجودہ حکومت کے ساتھ نہیں ہے لہذا حکومت کے خلاف احتجاج کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا۔ بلاول بھٹو کے بیانیے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پی پی پی کے لیڈروں کے خلاف کرپشن کے مقدمات کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی ریلیف حاصل کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ تر مقدمات کی بات کرتے ہیں جبکہ عوام کی کے مسائل اور مشکلات مہنگائی کا ذکر بہت کم کرتے ہیں - کاروان بھٹو ٹرین مارچ کی وجہ سے 4 اپریل کو جیالوں کا عظیم اجتماع ہوگا جو ریاست کے طاقتور اداروں کو متاثر کرنے کا سبب بنے گا باوثوق ذرائع کے مطابق ریاستی اداروں نے اصولی طور پر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ نیب کے پلی بارگیننگ کے قانون کو استعمال کرکے قومی لٹیروں سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لے کر پاکستان کوبیرونی قرضوں سے نجات دلائی جائے جو 98 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جن کی وجہ سے معاشی استحکام ناممکن نظر آتا ہے- اگر ریاستی ادارے پاکستان کے عوام کو بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ پالیسی ریاست اور قوم کے لئے بڑی کارگر اور مفید ثابت ہوگی-
دوست اور بزرگ میجر ریٹائرڈ شبیر احمد سابق ایڈیشنل ڈی جی آئی بی دارفانی سے کوچ کر گئے انا للہ وانا الیہ راجعون - مرحوم محب وطن پاکستانی وضع دار انسان اخلاقی اقدار کے امین نایاب شخصیت تھے - پاکستانی تاریخ کے عینی شاہد اور عسکری تجزیہ کار تھے مرحوم پاکستان ویژنری فورم سٹیزن کونسل آف پاکستان اور پاکستان فریڈم موومنٹ کے فعال بزرگ رکن تھے وزیراعظم بینظیر بھٹو کا اعتماد ان کو حاصل رہا انہوں نے 1993 میں کراچی میں امن و امان کے قیام کے لیے کلیدی اور سرگرم کردار ادا کیا وہ پرائمری تعلیم اور خصوصی طور پر ماؤں کی تربیت پر توجہ دے کر ایک مثالی اور معیاری نسل کی تشکیل کو پاکستان کے تمام مسائل کا واحد حل خیال کرتے تھے - انہوں نے مادر وطن کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں پاکستان اور فوج کے ساتھ ان کی وابستگی لازوال تھی اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے -
مجلس رومی و اقبال کے زیراہتمام 23 مارچ یوم پاکستان کے سلسلے میں پروقار اور با مقصد قومی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا اس تقریب کے روح رواں اعجاز شیخ اور میجر ریٹائرڈ اعجاز زیدی تھے جو مولانا روم اور علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں عوام کو غلامی کی ہر شکل سے نجات دلانے اور ہر قسم کے تعصبات اور امتیازات کے خاتمے کے لئے یادگار خدمات انجام دے رہے ہیں - قومی کانفرنس میں ڈاکٹر جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال ڈاکٹر فرید پراچہ ڈاکٹر جاوید یونس اوپل ڈاکٹر صغرا صدف عزیز ظفر آزاد پروفیسر اشوک کمار محمد فاروق چوہان اور راقم نے اظہار خیال کیا مقررین نے سیاسی معاشی معاشرتی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے رومی اور اقبال اور صوفیاء کی تعلیمات کو مشعل راہ بنانے پر زور دیا اور کہا کہ غلامی کی زنجیروں کو کاٹے بغیر عوام کی خوشحالی ناممکن ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن