• news
  • image

عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے اہم فیصلے

پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ایک دن میں عدالت سے دو خوش خبریاں ملیں، سپریم کورٹ نے نوازشریف کو طبی بنیادوں پر چھ ہفتوں کے لئے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے، تاہم ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر تے ہوئے انہیں پاکستان میں ہی علاج کرانے کی ہدایت کی ہے، نوازشریف مدت پوری کرکے واپس جیل جائیں گے، اگر چھ ہفتے بعدبھی ان کی صحت میں بہتری نہ آئی تو وہ از سر نو ضمانت کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں،اپیل کا فیصلہ ہونے پر معاملات ہائی کورٹ دیکھے گی، عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ طبی بنیادوں پرنواز شریف کی مشروط رہائی کی درخواست مناسب ہے۔ دوسری جانب لاہورہائی کورٹ نے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ای سی ایل سے نام نکالنے کا حکم دیا اورریمارکس دیئے کہ صرف الزامات کی بنیا د پر نام ای سی ایل میں شامل کیسے کیا جاسکتاہے، کیا الزامات کی بنا پر کسی کی آزادی سلب کی جا سکتی ہے؟
سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کو چھ ہفتے کی رہائی کے حکم پر ماہرین قانون استعجاب کا اظہار کررہے ہیں اور اب ان کا سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں اسّی ہزار قیدی ہیں اور ظاہر ہے کہ جیل میں ہر قیدی ذہنی دبائو کاشکار ہوتا ہے تو کیا ہر قیدی کو اب حق حاصل ہوگا کہ وہ ذہنی دبائو دور کرنے کے لئے کچھ دن یا زیادہ سے زیادہ چھ ہفتوں کے لئے جیل سے باہرجا کرذہنی دبائو کا علاج کرائے، بہرحال یہ تو ماہرین قانون جانیں یااعلیٰ عدلیہ وزیراعظم عمران خان کو کابینہ اجلاس کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی رہائی سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں عدالتیں اور ادارے خود مختار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو علاج کی تمام سہولتیں دینے کی ہدایت پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو علاج کے لئے یہ پیش کش کردی گئی تھی کہ وہ پاکستان کے جس ہسپتال اور جس ڈاکٹر سے علاج کرانا چاہیں وہاں سے علاج کراسکتے ہیں اور اگر وہ اپنے دیرینہ معالج کو ہی دکھانا چاہتے ہیں تو پھر لندن سے اپنے ڈاکٹر کو بلالیں حکومت تمام سہولتیں فراہم کرے گی، اگر یہی مقصود تھا تو پھر میاں نوازشریف کو حکومت کی اس پیش کش کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے مستفید ہونا چاہئے تھالیکن اس وقت میاں نواز شریف نے ایک ہی ضد پکڑ رکھی تھی کہ وہ علاج نہیں کرائیں گے حالانکہ اس ضمن میں ان کے بھائی میاں شہباز شریف، والدہ اور بیٹی مریم نواز نے بھی ان کو علاج کرانے کا مشورہ دیا لیکن میاں نوازشریف کا ایک ہی موقف تھا کہ حکومت ان کے علاج کا مذاق بنا رہی ہے وہ اس طرح خوار نہیں ہونا چاہتے۔ نہ جانے میاں نواز شریف کو یہ احساس کیوں ہوا کہ حکومت علاج کرانے کے بجائے ان کامذاق اڑارہی ہے، جہاں تک ان کو پی آئی سی کے بجائے سروسز اور جناح ہسپتال لے جانے کا تعلق ہے تو ان کو صرف امراض قلب ہی کی شکایت نہیں بلکہ گردوں کے امراض بھی لاحق ہیں، فشار خون بھی ہے اور شوگر بھی، یہ درست ہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی یعنی پی آئی سی صرف امراض قلب کا ہسپتال ہے جبکہ میاں نوازشریف کو دیگر امراض بھی لاحق تھے اس لئے ان کو سروسز میں لے جایا گیا تھا کہ ایک تو سروسز ہسپتال میں ایسے وی وی آئی پی روم ہیں جہاں ایسی شخصیات کو رکھا جاسکتا تھا اور دیگر امراض کے ٹیسٹ بھی یہاں پر ہونا تھے جبکہ پی آئی سی میں صرف دل کے امراض سے متعلقہ ٹیسٹ ہی ممکن تھے، اور جناح ہسپتال لے جانے کا بھی یہی مقصد تھا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کو ان کے وکلا نے یہ تسلی دی ہوگی کہ وہ عدالت سے بیماری کی بنیاد پر ان کو بیرون ملک علاج کے لئے اجازت دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن عدالت نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے فیصلے میں واضح کردیا کہ وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے، اس طرح حکومت کی ذمہ داری بھی ختم ہوگئی اگر عدالت صرف ضمانت تک فیصلہ محدود رکھتی اور اس کے بعد میاں نواز شریف لندن جانے کی کوشش کرتے تو ای سی ایل سے نام نکالنے یا نہ نکالنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی، گو حکومت کی جانب سے پہلے کہا جاچکا تھا کہ اگر میاں نواز شریف لندن میں علاج کرانا چاہتے ہیںتو یہ اختیار حکومت کے پاس نہیں بلکہ عدالت کے پاس ہے اگر عدالت ضمانت قبول کرتی ہے تو حکومت ای سی ایل سے نام نکال لے گی لیکن بہرحال سپریم کورٹ نے حکومت کو اس الجھن سے بچالیا اور خود ہی حکم دے دیا کہ مریض چھ ہفتے پاکستان کے اندار جہاں سے مرضی علاج کراسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی اب میاں نواز شریف پر ایک اور ذمہ داری بھی عائد ہوگئی ہے کہ چھ ہفتے صرف سیاست میں ضائع نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے وکیل خواجہ حارث نے اس نکتے پر چھ ہفتے کی ضمانت لی ہے کہ میاں نواز شریف نہ صرف امراض قلب، گردہ اور فشار خون کا شکار ہیں بلکہ ذہنی دبائو کا بھی شکار ہیں اور ذہنی دبائو کا علاج جیل میں رہتے ہوئے ممکن نہیںہے، اسی بنیاد پر عدالت نے ضمانت قبول کی ہے اب میاں نواز شریف کو کسی نہ کسی ہسپتال میں علاج کرانا ہوگا سیاسی اکابرین مزاج پُرسی کے لئے تو ان سے ملاقاتیں کر سکتے ہیں لیکن وہ سیاسی فعالیت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ جن بنیادوں پر ضمانت ملی ہے ان کے منافی ہوگا۔
بہرحال یہ باتیں اپنی جگہ اس فیصلے سے اب ایک نئی بحث کا آغاز ضرور ہوگیا ہے کہ جیل میں تمام مجرم مساوی حقوق رکھتے ہیں اب اگر میاں نواز شریف ذہنی دبائو کے علاج کے لئے چھ ہفتے کی ضمانت پر رہا ہوسکتے ہیں تو پھر جیل میں خوشی سے تو کوئی بھی نہیں بیٹھتا تمام قیدی ہی ذہنی دبائو کا شکار ہوتے ہیں تو کیا علاج کے لئے ان کو بھی رہائی مل سکتی ہے۔
لیکن یہ سوال کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر کسی نے دیگر قیدیوں کی جانب سے یہ سوال اٹھا دیا تو عدالت کی جانب سے یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ ٹھیک ہے بچاس پچاس لاکھ کے مچلکے جمع کرائو اور دو شخصی ضمانتیں لائو پھر پاکستان کے کسی بھی ہسپتال میں کسی بھی ڈاکٹر سے علاج کرالو اور چھ ہفتے بعد واپس جیل میں آجائو۔ بہرحال ایک عوامی طبقے کا یہ خیال بھی ہے کہ میاں نوازشریف چونکہ تین بار کے وزیراعظم تھے لہذاان کو عوام کے مقابلے میں زیادہ سخت سزا دی جانی چاہئے تھی کیونکہ ان پر بحیثیت وزیراعظم قومی دولت کے تحفظ کی زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی اس لئے ان کی سزا بھی زیادہ سخت ہونا چاہئے تھی۔ بہرحال یہ بحث اپنی جگہ اور ابھی اس نوعیت کی بحث کا سلسلہ جاری رہے گا، البتہ اب اتنا ضرور ہوگا کہ آصف علی زرداری،مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی اکابرین عیادت کیلئے میاں نواز شریف سے ملنے انکے گھر جاسکتے ہیں اور اس عیادت کے درمیان ملکی سیاست پر بات کرنے سے میاں نواز شریف کو ملکی تو کیا دنیا کا کوئی قانون نہیں روک سکتا۔ اب صُورت حال یہ ہے کہ بلاول ٹرین مارچ میں مصروف ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان بھی حکومت مخالف تحریک چلانے کی کوشش کررہے ہیں، ایسے مرحلے پر میاں نواز شریف کے قید ہونے کی بنا پر مسلم لیگ ن میں کئی دھڑے پیدا ہورہے تھے، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک جانب تھے میاں شہباز شریف دوسری جانب جبکہ مریم صفدر بھی اکثر و بیشتر ٹویٹ کرتی رہتی تھیں، اب میاں نواز شریف کے چھ ہفتے کے لئے گھر آنے سے مسلم لیگ ن میں دھڑے بندی کا سلسلہ رک جائے گا اور میاں نواز شریف سب کو یک جا کرسکیں گے جبکہ اپنے گھر سے یا ہسپتال سے ہی سیاسی بیانات جاری کرسکیں گے اس طرح مسلم لیگ ن بھی متحدرہے گی جبکہ ملک میں جاری سیاسی تحریکوں میں نواز شریف کی ہدایت پر مسلم لیگ ن کے کارکن فعال حصہ لے سکیں گے جس سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ضرور ہوگا۔
جہاں تک میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ صرف الزامات کی بنیاد پر کسی کی آزادی سلب نہیں کی جاسکتی، اس لئے عدالت کے حکم پر ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جانا انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق اور نیب کی کمزوری ہے کہ انہوں نے ٹھوس ثبوت لانے کی کوشش نہیں کی اور نام ای سی ایل میں ڈلوادیا، لہذا اس ضمن میں عدالت کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن