پنجاب میں کھلبلی ۔ افسر شاہی اور وزیر مشیر
تحریک انصاف نے بڑی مشکل سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں پہلی بار حکومت بنائی ہے۔ سو ابھی تک کھلبلی مچی ہے، ن لیگ اورپیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ اگر عمران خان کی پنجاب میں وزارتی ٹیم کے کپتان یعنی سردار عثمان بزدار کو ’’آئوٹ‘‘ کر دیں تو اتنی گرد اڑ سکتی ہے کہ منظر اپنے حق میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس بات کو وزیراعظم عمران خان سمجھتے ہیں، سو وہ تمام تر میڈیا تنقید اور سمجھ واقعاتی غلطیوں کے باوجود پنجاب کا انتظامی ڈھانچہ قائم رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ابتک صرف فیاض الحسن چوہان کو ٹیم سے باہر کیا گیا مگر ہمارا خیال ہے کہ جس ’’الزام‘‘ میں ان سے وزارتی ذمہ داری لی گئی وہ سرحد کے اس پار کی صورت حال کے حوالے سے کوئی بڑا الزام نہ تھا۔ تاریخ کے طالب علم نے تاریخ کا یا فلمی تاریخ ایک حوالہ ہی تودیا تھا۔ انکی جگہ پارٹی سے سید صمصام علی بخاری کو وزیر اطلاعات کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ سید صاحب جدی پشتی پیر ہیں، گورنمنٹ کالج لاہور کے حوالے سے رادین ہیں مہر علی رضا کے بقول اپنے علاقہ اور (ضلع اوکاڑہ میں) مرشد پاک کی حیثیت سے احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ پہلے پیپلزپارٹی میں تھے تب بھی منتخب ہو کر وزیر بنتے تھے۔ اب تحریک انصاف میں ہیں تو تب بھی منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔ کیونکہ وہ منتخب ہونے کیلئے کسی سیاسی جماعت کے محتاج نہیں ہیں پھر بھی جن سیاسی جماعت کواپناتے ہیں خلوص سے اس قیادت کے ویژن کو سامنے رکھنے کے قائل ہیں کلین اور گرین پاکستان مہم میں ضلع اوکاڑہ میں انکی سرگرمیاں اسکی گواہ ہیں۔ پنجاب کے وزرا تو ایک طرف خود وزیراعظم عمران خان اس بات کا ذکر کر رہے ہیں کہ نیب کے محاسبے کے باعث بیورو کریسی نے فائل ورک یا فیصلے کرنے کے سلسلے میں سست روی اختیار رکھی ہے۔ سو وزیراعلیٰ ہوں یا صوبائی وزراء انتظامی ڈھانچے یعنی افسران اور نیچے کے اہلکاران کی ’’بے عملی‘‘ سے سب نالاں ہیں سرکاری پبلک ریلیشنز کا لیول زیرو ہے۔ لوٹ مار کا تاثر عام ہے اور یہی سید صمصام علی شاہ بخاری کا ایک امتحان ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں ان دونوں شعبوں کے سیکرٹریٹ میں فائلوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ اساتذہ، ڈاکٹروں کے چھوٹے چھوٹے معاملات، رخصت ، ایڈہاک ایکٹینشن، معمولی اشیاء کی خریداری ایسے بے شمار کام، فائلیں لٹکی پڑی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے باوجود پنجاب اسمبلی کے سامنے کسی نہ کسی سرکاری شعبے کے دکھی لوگ دھرنا دیتے ہیں اور خود بھی رسوا ہوتے ہیں اور شہر بھر کی خلقت کو بھی خوار کرتے ہیں۔ ان دنوں اساتذہ بیٹھے ہیں۔ سابقہ دور میں محکمہ صحت کے سیکرٹریٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دونوں جگہ ’’سہولت سنٹر‘‘ مغربی انداز کے بنائے گئے۔ اب بھی ہیں بس کیس جمع کروا دو اور پھر ہفتوں چکر لگاتے پھرو۔ ایک ہفتے کا کام ایک مہینے میں ہو جائے تو سمجھو اللہ نے سن لی ہے۔ اس کھلبلی کے موسم میں جہاں وزیر بے بس ہیں۔ وزیراعلیٰ کے ایک مشیر چودھری محمداکرم نے اپنے ذمہ لگائے گئے کام کو احسن طریقے سے مکمل کرنے کی اچھی مثال قائم کی ہے۔ وہ پنجاب میں اور خاص طور پر لاہور میں مارکیٹوں کے مسائل حل کرنے میں مصروف ہیں۔ مارکیٹیں شہری زندگی کا محور ہوتی ہیں۔ اگر یہاں ایک طرف شہریوں کو اشیائے ضرورت صحیح نرخوں پر ملیں، ماحول صاف ستھرا ہو اوردوسری طرف تاجر طبقہ کاروبار کے سلسلے میں کسی ناروا دبائو کے بغیراور اچھے ماحول میں کام کرے تو اس سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے لبرٹی میں ایک نشست جہاں لبرٹی اور ملحقہ مارکیٹوں کے تاجروں کے نمائندوں صفدر بٹ اور یاسر بٹ کھل کر اپنے معاملات وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر محمد اکرم چودھری سے شیئرکر رہے تھے اور تاجروں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ عام شہری اور انتظامیہ کے مختلف شعبوں کے افسران بھی موجود تھے، یہ دیکھا کہ کس طرح حالات کو بدلنے کیلئے تاجر نمائندے، انتظامیہ کے لوگ مشیر ، وزیراعلیٰ کی صاف گوئی اور نیک نیتی کے جذبے سے متاثر ہوئے مسائل کے حل کے ئے منصوبہ بندی ہوئی اور سب نے عمران خان کے وزن کاساتھ دینے کیلئے ایثار اور محنت کے راستے کو اپنانے کا عہد کیا۔اس وقت حکام ہی یعنی افسران ہی حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ بنے ہوئے بلکہ بعض صورتوں میں تو حالات کو بہت زیادہ خراب بھی کر رہے ہیں۔ ایک مثال وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے میوہسپتال کے دورے اور وہاں کسی ’’افسر‘‘ کے مشورے پر ایم ایس کی معطلی اور چیف ایگزیکٹو کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی ہے۔ میو ہسپتال اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پاکستان بھر میں مثالی ادارے ہیں۔ کنگ ایڈورڈ کے وائس چانسلر پروفیسر خالد ایم گوندل کی انتظامی شہرت اور قابلیت کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر طاہر خلیل اور چیف ایگزیکٹو پروفیسر عاطب اسلم بہترین منتظم تسلیم کئے جاتے ہیں۔ پورے پنجاب کا دبائو جس ہسپتال پر ہو وہاں وزیراعلیٰ کا معمولی بات کے بہانے معطلی اور ڈانٹ ڈپٹ کا پروگرام کسی نے پسند نہیں کیا۔ جس افسر کے کہنے پر وزیراعلیٰ نے یہ انداز اپنایا ہے وہ ان کاخیر خواہ ہرگزنہیں اور ان کی شہرت کو خراب کر کے ان حضرات کے ایجنڈے کی تکمیل کا باعث بننا چاہتا ہے۔ جو عثمان بزدار کو اس منصب سے ہٹانے پر لگے ہیں۔