• news
  • image

ایوارڈ کا حقدار سمجھیں نہ سمجھیں ،کردار کشی نہ کریں

تمغہ امتیا زپاکستا ن میں سول اور عسکری شخصیات کو نوازا جانے والا چوتھا بڑا ایوارڈ ہے حکومت پاکستان اسے کسی بھی سول شخصیت کو اس کی ادب ،فنون لطیفہ ،کھیل ،طب یا سائنس کے میدان میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں دیتی ہے ۔ہر سال کی طرح اس برس بھی یوم پاکستان کے موقع پر صدر پاکستان کی جانب سے سول اور عسکری شخصیات کو ان کی خدمات کے عوض تمغہ امتیاز سے نوازا گیا،متعدد شخصیات کو اس اہم ایوارڈ سے نوازا گیا جوکہ یقینا حوصلہ افزاء بات ہے لیکن ہم یہاں صرف فلم اور ٹی وی سے جڑے لوگوں کی بات کریں گے ،اس مرتبہ ٹی وی اور فلم کے میڈیم سے جن شخصیات کو تمغہ امتیاز ملا ان میں پشتو زبان کے معروف گلوکار سردار علی تکر،ماڈل و اداکارہ مہوش حیات ، فوک گلوکار عطا اللہ عیسی خیلوی ،سروں کے بادشاہ سجاد علی ،سپر سٹار بابرہ شریف اور ریما خان ،کامیڈی کے بے تاج بادشاہ افتخار ٹھاکر،رائٹر ڈائریکٹر ،ناصر ادیب ، منجھے ہوئے اداکار شبیر جان اور پی ٹی وی کے سنہرے دور کی خوبصورت نیوز اینکر عشرت فاطمہ کے نام شامل ہیں ۔ان سب کے ناموںکا جب اعلان ہو ا تو عوامی حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا لیکن جب نام آیا مہوش حیات کا تو عوامی سطح پر ناراضگی اور خفگی دیکھنے کو ملی اور نہ رکنے والی تنقید کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ۔یہاں سوال یہ ہے کہ ریما ،بابرہ ، عشرت فاطمہ کے حصے میں تنقید کیوں نہیں آئی؟ صرف مہوش حیات کے حصے میں ہی تنقید کیوں آئی؟ سوشل میڈیا پر تو یہاں تک کہہ دیا گیا کہ مہوش حیات کو یہ ایوارڈ ملنے کے بعد اس اہم ایوارڈ کی اہمیت اور اس کا پیمانہہی مشکوک ہو گیا ہے ۔ایک چیز جو بہت ہی غلط ہوئی وہ تھی مہوش حیات کی کردار کشی جو کہ نہیں ہونی چاہیے تھی،مہوش تمغہ امتیاز کی حقدار تھیں یا نہیں لیکن بہر حال ان کا شمار پاکستان کی بہترین ماڈلز اور اداکارائوں میں ہوتا ہے ماڈلنگ سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور ڈراموں میں بھی اداکاری کی ،ندیم بیگ کے ڈرامہ ’’دل لگی‘‘میں ان کی اداکاری کو سراہا گیا ۔اسی ڈرامہ کی ٹیم نے ہی ان کو فلم ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ میںکاسٹ کیا اور یہ ملٹی سٹارز فلم تھی اس میں ان کے مقابلے میں ثروت گیلانی اورعائشہ خان بھی تھیں یوںان کا کردار کسی بھی طوردوسری کاسٹ کے مقابلے میں غیر معمولی نہ تھا فلم سپر ہٹ ہوئی تو کریڈٹ پوری ٹیم کا تھا خیرانہیں اسی ٹیم نے’’ پنجاب نہیں جائوں گی‘‘ کے لئے کاسٹ کر لیا اس کے بعد’’ ایکٹر ان لائ‘‘ بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئی جو کہ مہوش کے لئے بہت ہی اچھا سائن تھا ۔تمغہ امتیاز سے قبل اگر اہم ایوارڈز کی بات کریں تو انہیں لکس ایوارڈ بھی مل چکا ہے لکس ایوارڈ بھی ہمیشہ متنازعہ ہی رہے ہیںکیوں کہ اکثر فنکار یہ گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ لکس ایوارڈ ہو یا دیگر ایوارڈز جس کی جتنی بڑی سفارش ہو اسے اتنی ہی جلدی ایوارڈ ملتا ہے ۔ مہوش کو فلم ایکٹر ان لاء ،پنجاب نہیںجائوں گی کیلئے بہترین اداکارہ کا ایوارڈبھی ملا ،سوال یہ ہے کہ جب انہیں یہ ایوارڈز ملے تو تب عوامی سطح پر کسی قسم کا سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ ۔لیکن جب تمغہ امتیاز ملا تو عوامی سطح پر بڑی تعداد میں لوگوں نے تنقید کیوںکرنا شروع کر دی؟یہ سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے جس کا جواب مہوش خود بھی نہیں دے سکیں ۔ مہوش کی حمایت میں نامور اینکرز بھی بولے اور اداکار بھی لیکن عوام جو کسی کوبھی سٹار بناتی ہے اس نے اس چیز کو بالکل قبول نہیں کیا۔مہوش حیات نے ناقدین کو جواب دیا اور کہا کہ میں اس ایوارڈ کی حقدار ہوں میں نے کام کیا ہے تو مجھے ایوارڈ ملا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ جس طرح وہ اپنی کردار کشی کے حوالے سے آکر سوشل میڈیا پر بولی تھیں وہ اسی پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو بتاتیں کہ انہوں نے اس فیلڈ میں کیا کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں اور جو انہوں نے کام کیا وہ دوسروں کے مقابلے میں غیر معمولی ہے ،تاکہ ناقدین کا منہ بند ہوجاتا اور وہ بھی سوچنے پر مجبور اور شرمندہ ہوتے کہ ہم نے بے جا تنقید کی ہے لیکن مہوش نے ایسا نہیں کیا ۔اب بحث یہ چل رہی ہے کہ ریما خان اور بابرہ جنہوں نے برسوں اس انڈسٹری کو دئیے ان کے مقابلے میں مہوش حیات کو تمغہ امتیاز کیسے دیا جا سکتا ہے؟۔سوشل میڈیا پر ایک ایسا طبقہ بھی تھا جس نے مہوش کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ عورت کو ہمیشہ ہی تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے اس طبقے کی یہ تنقید بجا تھی کیوں کہ ہوتا تو ایسے ہی ہے جیسے ہی کوئی خاتون رسم و رواج کی بیڑیوں کو توڑ کر کچھ کرتی ہے تو اس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ ہے جو جب یہ دیکھتا ہے کہ عورت آگے بڑھ رہی ہے تووہ جب اس کو روک نہیں پاتا تو آسان حربہ آزماتے ہوئے اس کی کردار کشی کرنے لگ جاتا ہے بے شک ایسے لوگوں کی تعداد مٹھی بھر ہے لیکن جن خواتین نے ٹھان لیا ہوتا ہے کہ انہوں نے معاشرتی ترقی میں حصہ ڈالنا ہے ،زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا ،معاشرے اور حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنی ہیں تو وہ پیچھے نہیں ہٹتیں لیکن مہوش کے معاملے میں بات یہ ہے کہ ان کی کردار کشی کی گئی تو انہوں نے کردار کشی کا جواب دیا لیکن ان کے کریڈٹ پر کتنا کام ہے اس کی تفصیلات میں نہیں گئیں ۔بلا شبہ جو عورتیں پاکستان کا نام روشن کرتی ہیں ان کی خدمات کو سراہا جانا چاہیے لیکن تمغہ امتیاز ہو یا ستارہ امتیاز ،ہلال جرائت یہ ایسے ایوارڈزہیں جو عام انسان کو نہیں مل سکتے اس لئے جب ایسے ایوارڈ ز کو دینے کا فیصلہ کیا جائے عوامی امنگوں کے ساتھ ساتھ ان کی خدمات کو بھی دیکھا جانا چاہیے جو کہ دیکھا جاتا ہوگا لیکن مہوش حیات کے معاملے میںبقول لوگوں کے لگتا ہے صرف یہی دیکھا گیا ہے کہ انہوں نے چار فلموں میں کام کیا ہے ۔ناقدین کی تنقید اپنی جگہ لیکن عورت کو اس معاشرے میں آج بھی بے حد مشکلات کا سامنا ہے اس کا حوصلہ توڑنا ہو تو اسکی کردار کشی آسان حل ہے ، کوئی ملک کتنا مہذب کا اس کا اندازہ لگانا ہوتو وہاں کی عورت کو کتنی عزت دی جا رہی ہے یہی دیکھ لینا کافی ہوتا ہے ۔کسی کو اس کی خدمات کے عوض ایوارڈ دیں یا نہ دیں اس کے کام پر مثبت انداز میں بحث ضرور کریں لیکن اسکی کردار کشی نہ کریں ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن