آئی ایم ایف سے کوئی لینا دینا نہیں ، اقتصادی دہشتگردی کا ڈٹ کر مقابلہ کرینگے اردگان
استنبول (آئی این پی) ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ہم اقتصادی دہشت گردی کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، اب ہمارا آئی ایم ایف سے کوئی لینا دینا نہیں، ہمارا قرضہ ختم ہو چکا ہے، ترکی مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بعد شام کا مسئلہ حل کرے گا۔ استنبول کے علاقے کاغذ خانے میں عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ حالیہ ایام میں اقتصادیات کے ذریعے ترکی پر دبائو ڈالنے کی کوشش کرنے والوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چاہے یہ اندرون ملک سے ہو یا بیرونِ ملک سے، اس ملک کے عوام کی روزی پر اپنی نگاہیں گاڑنے والوں کو ہم ہر گز درگزر نہیں کریں گے۔ ہم جس طرح دہشت گردی کا خاتمہ کرنے پر اٹل ہیں اسی طرح ہماری معیشت کو کاری ضرب لگانے والوں کو سبق سکھا کر چھوڑیں گے۔ مسئلہ شام کا بھی ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد پہلا عام مسئلہ شام کو ممکنہ حد تک مذاکرات کے ذریعے وگرنہ میدان جنگ میں قطعی طورپر حل کریں گے۔ ادھر مقامی حکومتوں کیلئے الیکشن کے سلسلے میں ووٹ ڈالے گئے۔ انقرہ میں میئر کی سیٹ پر اپوزیشن اور حکمران اے کے پارٹی کو استنبول میں سبقت حاصل ہے۔ اردگان کی جماعت کو مالیاتی بحران کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ترکی میں پونے 57 ملین سے زیادہ ووٹرز مقامی حکومتوں میں اپنے نمائندے منتخب کر رہے ہیں۔ چند بڑے شہروں میں مئیر بھی براہ راست منتخب ہوں گے جن میں انقرہ کے میئر کے عہدے کے لیے کانٹے دار مقابلہ ہو رہا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ انقرہ میں ان کا میئر کے عہدے کے لیے متحدہ امیدوار منصور یاوش، ان انتخابات میں صدر اردگان کے امیدوار محمود اوژشکی کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ترکی میں اس وقت مہنگائی کی شرح بیس فیصد بتائی جا رہی ہے جبکہ لیرا مالیاتی بحران سے پہلے کے دنوں کے مقابلے میں ایک تہائی قیمت کھو چکا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت کو قوی امید ہے کہ وہ جسٹس پارٹی کو اس کے کئی مضبوط شہروں میں شکست دے دے گی۔ صدر رجب اردگان نے ان انتخابات کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ترکی کی اور ان کی جماعت انصاف پارٹی کی بقا کے لیے بہت اہم انتخابات ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ موجودہ صدر رجب اردگان مقبول ترین رہنما ہیں لیکن ان کا جدید ترکی کی عوام کو تقسیم کرنے کے لحاظ سے بھی ایک اہم کردار ہے۔ لیکن مبصرین کے مطابق، اب افراط زر، مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے ایسا نظر آرہا ہے کہ تْرک عوام انہیں اور ان کی جماعت انصاف پارٹی کو ایک سزا دینا چاہتے ہیں۔ حزب اختلاف کے ایک جلوس میں شامل ایک ووٹر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 'لوگوں کی زندگی اقتصادی مسائل کی وجہ سے اجیرن ہو گئی ہے۔ ’میں ایک دکاندار ہوں، اور ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہوں، لیکن میں نے اس سے پہلے اتنی بری حالت نہیں دیکھی۔'