غداری کیس: مشرف 2مئی کو نہ آئے تو دفاع کا حق ختم ہو جائیگا: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+صباح نیوز)سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مشرف2مئی کو پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت استغاثہ کو سن کر فیصلہ کرے، مشرف کے پیش نہ ہونے پر ان کا دفاع کا حق ختم ہو جائیگا جس کے بعد پرویز مشرف کو سیکشن 342کے تحت بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت بھی نہیں ہوگی لیکن اگر پرویز مشرف دو مئی کو پیش ہوجاتے ہیں تو تمام سہولیات میسر ہوں گی، مشرف پیش نہیں ہوتے تو اسکا مطلب ہے کہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے۔ ملزم جان بوجھ کر غیر حاضر ہوجائے تو اسکے بعد کی کارروائی غیرحاضری کے زمرے میں تصور نہیں ہوگی اور مفرور ملزم کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ قبل ازیں سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس کو آگے کیسے بڑھانے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے آبزرویشن دی تھی کہ آدھے گھنٹے میں مشاورت کے بعد مناسب حکم جاری کرینگے، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے خود مشرف کو بیرون ملک جانے دیا اور عدالتی حکم پر حکومت نے مشرف کی واپسی کیلئے بھی اقدامات نہیں کیے اور حکومت نے خود کیس میں پیچیدگیاں پیدا کیں۔ خصوصی عدالت 2016 میں قرار دے چکی کہ مشرف کی واپسی یا گرفتاری تک آگے نہیں بڑھ سکتے۔ خصوصی عدالت کے اس حکم کو بھی حکومت نے چیلنج نہیں کیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے غداری کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو خصوصی عدالت کا 28 مارچ کا حکم نامہ سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا مشرف نے پیش ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے؟ اس پر وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ مشرف خود واپس آ کر بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مشرف یقین دہانی کے باوجود واپس نہ آئے تو کیا ہوگا؟ کمٹمنٹ کرکے واپس نہ آنے پر کچھ تو ہونا ہی چاہیے۔ وکیل نے جواب دیا کہ میںذاتی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ مشرف واپس آئیں گے، بطور وکیل مجھے ہدایات ہیں کہ مشرف خود پیش ہونگے، بیرون ملک جاری علاج کی وجہ سے 13مئی کو واپس آنے کی تاریخ دی، سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پرویز مشرف سے متعلق مقدمہ غیر موثر ہوچکا ہے، گذشتہ سماعت عدالتی ریمارکس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مشرف کے وکیل نے موقف اپنایا کہ چیف جسٹس کی برطانوی آمر کی مثال شہ سرخیاں بن گئی، چیف جسٹس نے کہاکہ ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل غیر آئینی ہوتا ہے، ملزم جان بوجھ کر پیش نہ ہو تو اس کو فائدہ نہیں اٹھانے دے سکتے کیونکہ سنگین غداری کوئی معمولی جرم نہیں، وفاقی حکومت کے پراسیکیوٹر نصیر الدین نیئر نے موقف اپنایا کہ مشرف کا ٹرائل ان کی عدم موجودگی میں نہیں ہو رہا، مشرف پر فرد جرم انکی موجودگی میں عائد ہوئی تھی اور مشرف طلب ہونے پر پیشی کی یقین دہانی کرا کر گئے تھے، وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ ہوئی تو چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت خود کیس کو بند گلی میں لیکر گئی، درخواست گزار وکیل نے کہا کہ حکومت کا رویہ سب کے سامنے آ چکا، سابق حکومت نے مشرف کو این آر او دیا اس لئے عدالت آرٹیکل 187کے تحت خصوصی اختیار استعمال کرے، چیف جسٹس نے کہاکہ ایک طرف مفرور ملزم دوسری طرف عدم موجودگی میں ٹرائل کا معاملہ ہے، ٹرائل بھی سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد زندہ ہوا، ٹرائل کورٹ اپنا 19جولائی 2016کا فیصلہ خود تبدیل نہیں کر سکتی، سابق صدر کے وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف کو کبھی گرفتار نہیں کیا گیا، مشرف کی بیماری کو تسلیم کرتے ہوئے باہر جانے دیا گیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مشرف واپس نہ آئے تو نتائج کیا ہونگے؟ سلمان صفدر نے کہا کہ نہ آنے کے نتائج بتانے پر ہی خصوصی عدالت نے تاریخ دی، چیف جسٹس نے کہا کہ دو مئی کو کیا ہوگا معلوم نہیں، ممکن ہے مشرف کی جگہ میڈیکل سرٹیفکیٹ آ جائے، پرویز مشرف کے وکیل نے کہاکہ حکومت نے خود مشرف کیس کو ہلکا لیا۔ اس دوران درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت قانونی پیچیدگی پر ازخود نوٹس لے۔آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے غداری منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پانچ ہدایات جاری کر دیں عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت مشرف کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل کو جاری رکھے مشرف کی سچی یا جھوٹی طبی رپورٹس کو قبول نہیں کیا جائے گا اگر مشرف نہیں آتے تو 342 کے بیان کی ضرورت ہی نہیں ٹرائل کورٹ پہلے سے دستیاب دستاویزات اور شواہد کی روشنی میں فیصلہ سنائے مقدمہ سپریم کورٹ کی نگرانی کیلئے التواء رکھیں گے چیف جسٹس نے کہا خصوصی عدالت نے حکمنامے میں اوپن ہینڈ رکھا خصوصی عدالت نے یہ تحریر نہیں کہ مشرف 2 مئی کو آنہ آئے تو کیا ہوگا۔ ٹرائل کورٹ نے خود کو یرغمال بنا لیا بدقسمتی سے خصوصی عدالت نے پرویز مشرف غداری کیس کی کاررائی درست انداز میں آگے نہیں بڑھائی۔