حضرت طلحہ کی جاںبازیاں
حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد کے دن جب حضور پہاڑی کے اوپر چڑھ رہے تھے تو حضور کے ساتھ صرف طلحہ بن عبیداللہ اور گیارہ انصاری تھے۔مشرکین کی ایک جماعت نے آپ پر پیچھے سے ہلہ بول دیا ۔آپ نے پوچھا کیا تم میں سے کوئی ہے جو ان کا راستہ روکے،طلحہ نے عرض کی یارسول اللہ !میں ہوں ، فرمایا :تم جہاں ہو ٹھیک ہو۔۔کوئی اور؟ایک انصاری نے عرض کیا ،اے اللہ کے پیارے رسول !میں حاضر ہوں۔یہ کہہ کر وہ ان حملہ آوروں سے نبرد آزما ہوگئے ،حضور اوپر چڑھتے گئے کچھ دیر کی مزحمت کے بعد یہ انصاری شہید ہوگئے ،حضورنے پھر وہی فرمایا:حضرت طلحہ نے عرض کیامیں حاضر ہوں۔حضورنے انہیں وہیں ٹھہرنے کا ارشادفرمایا ،ایک دوسرے انصاری نے دشمنوں سے لڑنا شروع کردیا ،یہ انصاری بھی شہید ہوگئے یہاں تک کہ گیا رہ کے گیارہ انصاری باری باری دشمنوںکے آڑے آتے رہے اور جانیں قربان کرتے رہے ۔اب کفارکے اس ریلے کا مقابلہ کرنے کے لیے حضور اورآپ کے جانثار حضرت طلحہ ہی رہ گئے۔حضرت طلحہ مشرکین کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے اورحضرت طلحہ نے اُن گیارہ افراد جتنی مزحمت اکیلے میں کی ۔جمالِ نبوت کایہ شیدائی ہالہ بن کرخورشید نبوت کے آگے پیچھے دائیں بائیںہرطرف گردش کناںرہا ۔تیروں کی بوچھاڑ کوہتھیلی پر روکتا ،تلوار اورنیزہ کے سامنے اپنے سینے کو سپر بناتا پھر اس حال میں کفار کا نرغہ زیادہ ہوجاتا تو شیر کی طرح تڑپ کر حملہ کرتا اور دشمن کو پیچھے ہٹا دیتا ۔ ایک دفعہ کسی نابکار نے ذات اقدس پر تلوار کا وار کیا ،خادم جانثار یعنی طلحہ جاں باز نے اپنے ہاتھ پر روک لیا اورانگلیاں شہید ہوگئیں آہ کی بجائے زبان سے نکلا ’’حس‘‘یعنی خوب ہوا ۔سرور کائنات نے فرمایا :اگر تم اس لفظ کی بجائے بسم اللہ کہتے تو ملائکہ آسمانی تمہیں ابھی اٹھا لے جاتے ۔غرض حضرت طلحہ دیر تک حیرت انگیز جاں بازی اوربہادری کے ساتھ مدافعت کرتے رہے یہاں تک کے دوسرے صحابہ بھی مدد کے لیے آپہنچے ، مشرکین کا ہلہ کسی قدر کم ہوا توسرور کائنات کو اپنی پشت پر سوار کرکے پہاڑی پر لے آئے اورمزید حملوں سے محفوظ کردیا ۔(سیر الصحابہ)
حضرت ابوبکر صدیق جب یوم اُحد کا ذکر کرتے تو فرماتے ’’ یہ دن سارے کا سارا طلحہ کے حصے میں آیا،حضرت طلحہ کا سارا جسم زخموں سے چھلنی تھا ،ہم نے ان کے زخموں کو شمار کیا تووہ ستر سے بھی زیادہ تھے پھر ہم نے ان کے زخمو ں کی مرہم پٹی کی،حضرت طلحہ کے سرپر تیروں کے بہت سے زخم لگے تھے جس سے بہت سا خون بہہ گیا اورآپ بے ہوش ہوگئے ‘‘۔ میں نے ان کے چہرے پر پانی چھڑکا تو انہیں ہوش آیا تو سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ حضور کا کیا حال ہے۔
ہم نے بتایا کہ الحمد اللہ حضور بخیرو عافیت سے ہیں یہ سن کر اس جاں باز صادق نے بے ساختہ کہا اللہ کا شکر ہے حضور سلامت ہیں ہر مصیبت آپ کے ہوتے ہوئے کوئی حقیقت نہیں رکھتی ۔ (ضیا ء النبی)