منگل ‘ 25؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 2؍ اپریل 2019ء
پی ایچ ڈی مقالہ آن لائن برائے فروخت۔ برطانیہ کا بڑا تعلیمی سکینڈل سامنے آ گیا
بھلا خرید وفروخت کو کوئی سکینڈل کیسے کہہ سکتا ہے۔کیا برائی ہے آخر اس کام میں۔ اس طرح تو برطانیہ کے ادارے علم کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کے کئی مقالے تحقیقات کے بعد سرقہ شدہ ثابت ہوتے ہیں۔ اگر تحقیقات نہ ہو تو کون اسے چوری شدہ قرار دے گا۔ یہ تو اچھی بات ہے اس طرح دنیا میں تعلیم کو فروغ ملے گا۔ ہر ایک شخص جس نے نقل سے ڈگریاں حاصل کی ہیں یا رشوت سے۔ اب پی ایچ ڈی کہلائے گا اور ملک و قوم کی ترقی میں ہاتھ بٹھائے گا۔ ورنہ کہاں لکھنے پڑھنے کی خجل خواری اور کہاں کتابیںپھولنے کی سردردی۔ اب آرام سے بیٹھے بٹھائے دولت مند جس طرح دوسروں کی مدد سے امتحانات پاس کرتے ہیں اب پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر لیا کریں گے۔ سارا مقالہ خریدے گئے پڑھے لکھے افراد لکھیں گے اور خریدنے والا رقم ادا کر کے یہ مقالہ اپنے نام سے دے کر ڈاکٹریٹ کی وہ ڈگری حاصل کرے گا جس پر بعض لوگ بڑا اتراتے ہیں۔ ہمیں برطانیہ کی اس تعلیم دوست پالیسی سے کوئی اختلاف نہیں۔ یہ کام ہمارے ہاں بھی چھپ چھپ کر ہوتا ہے۔ اس پر شورکیوں نہیں اٹھایا جاتا۔ جہاں میٹرک سے لے کر ایم اے تک کی ڈگریاں اور پی ایچ ڈی کے مقالے دو نمبر طریقے سے ملتے ہوں وہاں کسی کوپارسا کہلانے کا حق نہیں۔ تحقیقات کر لیں سب معلوم ہو جائے گا ویسے اب ہمارے اکثر امرا اور سیاستدان خیر سے پی ایچ ڈی کہلا سکیں گے۔
٭٭٭٭٭
مودی نے آسام کے دورے میں بہروپئے کا روپ دھارا
بھارتی وزیر اعظم تو بذات خود ایک بہروپیا ہیں انہیں بھلا عوام کے سامنے بہروپئے کا روپ دھارنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ وہ گزشتہ پانچ برس سے روپ بدل بدل کر عوام کو ذات پات اور مذہب کے نام پر تقسیم بھی کرتے ہیں اور پھر بہروپیا بن کر ان کی ہمدردی میں مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے ان سے ووٹ مانگنے بھی آ جاتے ہیں۔ ان کے روپ بدلنے کی اس کامیاب حکمت عملی کودیکھ کر ہی لگتا ہے بالی ووڈ نے ان پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا ایک مقصد الیکشن میں مودی کے ہاتھ مضبوط کرنا بھی ہیں۔ ورنہ رافیل طیاروں کی خریداری کے سودے میں کرپشن کی واردات کے بعد ان پر فلم تو کیا لوگ کارٹون بنانا بھی پسند نہیں کریں گے۔ اب مودی جیسے بہروپئے کے پاس واحد راستہ یہی بچتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد قسم کی باتیں کر کے فلمی سٹرائیکس کو حقیقت بنا کر عوام کے سامنے پیش کریں۔ اس طرح بے وقوف جذباتی عوام میں پاکستان مخالف جذبات پیدا کر کے ووٹ حاصل کریں۔ گویا ان کا سارا بہروپ صرف بھارتی عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ بھارت کے مسائل آج بھی وہی ہیں جو 5 برس قبل تھے۔
٭٭٭٭٭
وزیراعظم نے سندھ کو لولی پاپ دیدیا، مصطفی کمال، کراچی پیکج پر وزیراعظم کے شکر گزار ہیں۔ وسیم اختر
وزیراعظم عمران خان کے کراچی پیکج کے بارے میں ماضی کے دو ہم جماعت رہنمائوں کے یہ متضاد بیانات پڑھ کر کراچی کے عوام حیران ضرور ہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ عمران خان نے سندھ کے دورہ میں کراچی کیلئے 126 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے جس پر مصطفی کمال جھٹ سے بول پڑے کہ کراچی والوں کو چپ کرانے کے لیے لولی پاپ دیا گیا ہے۔ ایک دھیلا بھی انہیں نہیں ملنے والا۔مصطفی کمال بھی کراچی کے میئر رہ چکے ہیں۔ ان کے دور میں جو چند کام ہوئے وہ آج تک ان کا کریڈٹ لیتے ہیں۔اب وسیم اختر کراچی کے میئر ہیں ان کے دور میں کیا ہوا اس کا ذکر ہی عبث ہے۔ مصطفی کمال سے لے کر وسیم اختر کے دور تک کراچی کے مسائل بڑھے ہیں۔ تجاوزات، قبضہ گروپوں اور کچرے نے کراچی کی شکل بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت 10 برس سے صوبے کی حکمران ہے۔ مگر کراچی کی حالت غریبوں کی جھگی کی طرح بدل نہیں پائی۔ اب یہ بات تو دونوں سابق میئر بخوبی جانتے ہوں گے کہ کراچی کو کچرا کنڈی بنانے میں تجاوزات کے بوجھ تلے دبانے میں ا ور اراضی کی بندربانٹ میں سب سے زیادہ ہاتھ ان کا ہے یا حکومت سندھ کا۔ مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اس لیے سندھ ہو یا کراچی دونوں کی بدحالی کی ذمہ داری سندھ حکومت اور ایم کیو ایم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ باقی کسی کو تو انہوں نے آگے آنے ہی نہیں دیا جو اس لوٹ کی گنگا میں ہاتھ دھوتا۔ اب عمران خان کی حکومت کی آنیاں جانیاں تو نظر آ رہی ہیں مگر کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا سوائے اس کے کہ گورنر ہائوس عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے اور گورنر سندھ ہیوی بائیک چلانے کا شوق بھی پورا کر رہے ہیں۔دیکھتے ہیں اب اس 126 ارب روپے سے سندھ کی کچھ حالت بدلتی ہے یا کراچی کی۔
٭٭٭٭٭
رحیم یار خان میں خواجہ سرا کی سالگرہ پرسکیورٹی پلان تیار
اب اس کے بعد بھی اگر کوئی خواجہ سرا یہ شکایت کرے کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے تو اسے اٹھا کر سمندر میں پھینکنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔ اتنا پروٹوکول جو شیلا کو اس کی جوانی پر دیا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے امرا کو نصیب نہیں ہوتا۔ انہیں بھی ناچ گانے اور اسراف سے ڈر لگا رہتا ہے۔ ون ڈش اور رات دس بجے تک کے ٹائم کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔ مگر رحیم یار خان کی شیلا کی جوانی نے تو سب کی بہہ جا بہہ جا کرا دی ہے۔ کہنے کو تو جنوبی پنجاب کے سیاستدان وہاں کی محکومیوں کا رونا روتے ہیں۔ اب ان آنسوئوں کی برسات میں برساتی کھمبی کی طرح اگتی ہوئی اس شیلا کی جوانی کے 16 سالہ جشن یعنی سالگرہ نے ثابت کردیا ہے کہ وہاں کے حالات بھی اتنے برے نہیں۔ غریب تو کہیں کا بھی ہو اس کی 16 ویں سالگرہ اول تو منائی ہی نہیں جاتی ان میں یہ علت کہہ لیں یا بدعت سرے سے ہی موجود نہیں۔ اوپر سے کثرت اولاد کے سبب انہیں کہاں یاد رہتا ہے کہ کون کب پیدا ہوا اور کب 16 برس کا ہو گیا۔ اب رحیم یار خان کی اس خواجہ سرا کی تصویر اور سالگرہ کی تقریبات کی دھوم مچ رہی ہے تو بہت سے شوقین اور شائقین نوٹوں کی گڈیاں ہاتھ میں لے کر اس کی سالگرہ رج کے منائیں گے۔18 اپریل کو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ جشن ہو گا۔ ملک بھر سے خواجہ سرا اس میںناچتے گاتے تالیاں بجاتے ٹھمکے لگاتے شرکت کریں گے۔ جس کے لیے پولیس نے بھی سکیورٹی پلان تیار کر لیا ہے۔ حیرت کی بات ہے عوام ڈاکوئوں اور چوروں کے ہاتھوں آئے روز لٹتے ہیں۔ پولیس ان کے لیے تو کوئی سکیورٹی پلان جاری نہیں کرتی البتہ خواجہ سرا کی سالگرہ کے لیے پلان تیار ہو جاتا ہے۔ اب تو عوام کہیں حکومت سے خواجہ سرائوں جتنی اہمیت اور سکیورٹی پلان کی فراہمی کا مطالبہ نہ کرنے لگ جائیں۔ جو سکیورٹی کیمروں کے باوجود آئے روز لٹتے رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭