زرداری اور بلاول بمقابلہ نیب
یہ زرداری کے مہنگے وکلا اور نیب کاْمقابلہ ہے ثبوت حاضر ہیں لیکن عدالت میں ثابت کرنا الگ معاملہ ہوگا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ جعلی اکاونٹس سے زرداری اور بلاول کے اخراجات کئے جاتے رہے اور ائیر ٹکٹوں کی بنکوں کے ذریعے ادائیگیاں کی جاتی رہیں اس سے بڑا دستاویزی ثبوت کیا ہوگا ۔ 1972 والے بی سی سی آئی کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے حیرت انگیز کام کیا ہے۔ تحقیق کا اصل حسن اور محنت ثبوت کی دستیابی ہوتی ہے۔ تحقیقات کرنے والوں نے جس محنت اور عرق ریزی سے یہ تمام تفصیل اور اعدادوشمار جمع کئے ہیں، انکی تحسین نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ تفتیش کاروں کی اس محنت کی پذیرائی ابھی اس طرح نہیں ہوئی جیسا کہ حق ہے۔ لیکن تفتیش اور تحقیق کی اصل کسوٹی عدالت ہوتی جس میں دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا وکلاء صفائی جو جھاڑو پونچھا لے کر کٹہرے میں اتریں گے تو اس لمحے یہ شواہد اتنے جاندار ہوں گے کہ وہ صفائی کے ماہرین کی دھلائی کے باوجود اپنا اثر نہ کھوئیں/ مالیاتی جرائم میں واردات کے ثبوت ڈھونڈنا ہی اپنی جگہ ایک کارلاحاصل ہوتا ہے، اگر کوئی سمندر کی تہہ میں اتر کر سوئی تلاش کربھی لائے تو پھر ایک نئی مشکل عدالت میں شروع ہوجاتی ہے۔
1972ء میں قائم ہونے والے ’بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل‘ یعنی بی سی سی آئی پاکستانی سرمایہ کار آغاحسن عابدی نے قائم کیاتھا۔ لکسمبرگ میں رجسٹرڈ ہونے والے اس بنک کا ہیڈآفس کراچی اور لندن میں تھا۔ دس سال بعد 78 ممالک میں اس بنک کی 400 شاخیں قائم ہوگئیں اور اثاثوں کی مالیت 20 ارب ڈالر سے زائد تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کا ساتواں بڑا نجی بنک بن گیاتھا۔ 1980ء میں بی سی سی آئی کی مالیاتی ماہرین اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے جانچ پڑتال شروع کی۔ انکشاف ہوا کہ یہ بنک بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ اور دیگر مالیاتی جرائم کا گڑھ ہے۔ 1991ء میں بڑی ریگولیٹری جنگ شروع ہوگئی اور پھراسی سال 5 جولائی کوکسٹم اور بنک ریگولیٹرز نے سات ممالک میں اس بنک کی شاخوں پر چھاپہ مارا اور اس کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ امریکہ اور برطانیہ میں تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ بی سی سی آئی دانستہ طورپر مرکزی ضابطوں کو توڑنے کیلئے بنائی گئی ہے۔ پاکستان سے پیسہ لوٹنے کے بعد اسے باہر بھجوانا ہی سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے تاکہ کالے دھن کو سفید کرلیاجائے اور حرام پر حلال کا ٹھپہ لگ جائے۔ اس منظم انداز میں ایک پورا چینل بنانا مجرمانہ ذہنیت کی معراج ہی کہاجائیگا اس لئے جے آئی ٹی کو داد دینا بنتا ہے۔ مالیاتی جرائم کو پکڑنا آسان نہیں۔ یہ بہت ہی باریکی کا کام ہے۔ اسی لئے جے آئی ٹی کی رپورٹ نے لوگوں کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ تفصیل، اعدادوشمار اور شواہد جمع کرنا نہایت مشکل کام تھا، اسکی وجہ یہ ہے کہ جن کا یہ سرمایہ ہے، انکے مددگار اور معاون بھی ہر جگہ موجود ہیں، ان سب سے بچ کر یہ سب شواہد جمع کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ شیر کے منہ سے گوشت چھین لانے والی بات ہے۔ سرمایہ کی ترسیل کا خاکہ دیکھنے سے اس محنت کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منی لانڈرنگ سکیم بے نقاب کیا۔
سچائی کے متلاشیوں نے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور بنک ماہرین کو شامل کرکے اس امر کو یقینی بنایا کہ کچھ چھپا نہ رہے، سب جانتے ہیں کہ آصف زرداری اس طرح کے مشکوک کاموں میں برسوں سے ملوث ہیں لیکن وہ ہر مرتبہ مچھلی کی طرح جال سے پھسل کر نکل جاتے تھے۔ اس وقت کا عسکری حکمران بے نظیر بھٹو کو بلیک میل کرنے کیلئے اسے استعمال کررہا تھا۔ این آر او ایک ایسا ہی صابن تھا جس نے شواہد جمع کرنے والی ایجنسیوں، ماہرین اور نجانے کتنے ہی ایماندار افراد کی تمام محنت اور کئے کرائے پر پانی پھیر دیا تھا۔ کتنے ہی ٹھوس شواہد اور ثبوت کیوں نہ ہوں، این آر او نے اسے دفن کردیا۔
ان واقعات سے آصف علی زرداری کی مہارتوں کو مزید جلا ملی، انتقام اور مہارت نے کام دو آتشتہ بنادیا، انہوں نے قانونی نظام کے سقم اور موشگافیوں کو اپنی طاقت بنالیا اور عدالتوں سے ہی کلین چٹ لے لی۔ بڑے بڑے وکیل آخر کس کام کے لئے ہیں؟ واجد شمس الحسن اور حسین حقانی جیسے سفارتکاروں کے بھیس میں اپنے ’کارندوں‘ کو شواہد مٹانے اور راستہ سیدھا کرنے کیلئے استعمال کیا۔ تکنیکی بنیادوں پر وہ ایک کے بعد دوسری عدالت سے بریت کے پروانے پاتے گئے۔
سندھ حکومت کی صورت میں انکے پاس ایک بڑی طاقت موجود رہی۔ ریاستی اور عوامی وسائل کی لوٹ سیل لگی۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے پاناما کا واقعہ ہوگیا، شکست خوردہ اسٹیبلشمنٹ کو نوازشریف اور زرداری کے خلاف موقع مل گیا۔ نوازحکومت اور ان کے اہلخانہ کی غلطیوں نے مسائل بڑھادئیے۔ عمران خان کی سیاسی مقبولیت نے مزید جلتی پر تیل کا کام کیا اور نوازشریف اور آصف علی زرداری کیلئے مسائل کی گتھی اور الجھ گئی۔ نوازشریف کے بعد اب باری آصف علی زرداری کی تھی۔انکے خلاف شواہد اور ثبوت پہلے ہی ٹنوں کے حساب سے سامنے موجود تھے لیکن کسی کو عدالتوں میں پیش کرنے کی جرات تھی نہ ہی اجازت۔
جے آئی ٹی نے فوری ریکارڈ اپنے قبضے میں لئے بلکہ بیرون ملک وفد بھجوائے تاکہ جہاں سقم ہیں، انہیں دور کیاجاسکے۔ عزیربلوچ، انور مجید اور انکے اہل خانہ، ڈاکٹر عاصم حسین، حسین لوائی اور دیگر سرخ دائرے میں آگئے۔ 26 جلدوں میں جب یہ شواہد عدالت عظمی میں پیش ہوئے تو لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں۔ خود آصف علی زرداری کسی اچھائی کی توقع نہیں ۔
اپنی بقاء کے لئے برسرپیکار ٹولے نے عمران خان کے خلاف جنگ شروع کردی حالانکہ اس کا اس سارے معاملے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہونے والی محنت تھی۔ آصف زرداری کو ایک سیاسی ہدف کی تلاش تھی جو عمران خان کی صورت مل گیا۔ پنجابی کی مثال کا اردو ترجمہ ہے کہ ’بیٹی سے کہنا لیکن اصل میں بہو کو کھری کھوٹی سنانا‘۔ وہ چند سال پہلے والی اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتے تھے جب فوج کے خلاف براہ راست عدالتوں سے رجوع کربیٹھے تھے۔ عمران خان پر سیاسی حملہ کرکے انہیں دو فوائد حاصل ہوسکتے تھے، ایک طرف سندھ میں اپنی حکومت کی خراب کارکردگی پر مخالفین کی تنقید سے بچنے کیلئے اور دوسرے اپنی بچت پروگرام۔۔۔ عمران خان کو جب جے آئی ٹی کے انکشافات سے آگاہ کیاگیا تو انہوں نے ان تمام افراد کو ای سی ایل میں ڈال دیا۔ پی پی پی اور سندھ حکومت کی تمام ’’اشرافیہ‘‘ منی لانڈرنگ کے اس عظیم سکینڈل میں سر تک دھنسی ہوئی ہے۔ گرفتاریوں کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے جو کسی بھی لمحے گرسکتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ جس درجے پر یہ معاملہ پہنچ چکا ہے اس میں جیت کس کی ہوتی ہے اور ہارتا کون ہے؟ کسی فریق کیلئے پیچھے ہٹنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ جلد یا بدیر ایسا دکھائی دیتاہے کہ موجودہ صورتحال میں عضو معطل بن جانے والا سندھ کا صوبہ کسی نہ کسی کو سنھبالنا ہوگا۔ اس صوبے کو احسن انداز سے چلانے کیلئے کچھ کرنا پڑیگا۔ چند لوگوںکو بدعنوانی سے بچانے کیلئے پوری ریاست کا ہی یرغمال بن جانا، قبول نہیں۔ وفاقی حکومت کو سرعت اور مستعدی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔
زرداری کیلئے مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کا بیٹا بھی پکڑا جا سکتا ہے۔ سیاست کی اُٹھان پر ہی اسکی شخصیت کا اتنا منفی پہلو اسے بھٹو بناتے بناتے زرداری بنا دیگا۔ اس حقیقت کو خود زرداری صاحب بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جیل جانے کی صورت میں ان کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کاروان بھٹو کا حشر دیکھ کر خود پی پی پی اور بلاول جی مان رہے ہیں کہ ہم نے تو مارچ نہیں کیا، یہ تو مہنگائی کرنے پر عوام سے یک جہتی اور حکومت کے خلاف احتجاج تھا۔ یعنی احتجاج کی گاڑی کے چاروں پہیوں سے ہوا نکل چکی ہے۔ یہ تو سندھ میں ہوا ہے، پنجاب یا کہیں اور کرنا پڑ گیا تو پی پی پی کو دانتوں پسینہ آجائیگا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب پی پی پی کے پاس ایک ہی چارہ ہے کہ غیرملکی ایجنڈے کی ہم نوا بن جائے جیسا کہ کالعدم تنظیموں کے معاملے پر بلاول نے پتہ سوچ سمجھ کر پھینکا ہے۔ آنے والے دنوں میں فیصلہ کن انداز اپنائے جانے کا امکان ہے۔ کوئی بھی ہارنے کو تیار نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمران اور حزب اختلاف میں یہ جنگ کسے فتح مند بناتی ہے اور کون شکست فاش سے دوچار ہوگا۔ اللہ کرے پاکستان کی فتح ہو۔