وفاقی کابینہ: آئی پی ایل میجز دکھانے پر پابندی، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام نہ بدلنے کا فیصلا
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی کابینہ نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں آئی پی ایل کی نشریات دکھانے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ارشد ملک کو پی آئی اے کا سی ای او تعینات کیا گیا۔ شمس الدین پی ایم ڈی سی کے نئے چیئرمین ہوں گے۔ قمر جاوید کی سربراہی میں او جی ڈی سی ایل کا نیا بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر کی سربراہی میں ایس ایس جی ۔۔۔۔۔ ایل کا نیا بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔ 57.3 بلین کا بجٹ فاٹا کو منتقل کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ اس بات کا فیصلہ وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل نہیں کیا جا رہا۔ اس کے علاوہ بھی سماجی بہبود کیلئے کئی نئے پروگرام لا رہے ہیں۔ کابینہ نے غربت کے خاتمے کیلئے نئی وزارت کے قیام کی منظوری دیدی ہے۔ سستا گھر سکیم کا بھی جلد افتتاح ہو رہا ہے جبکہ احساس کے نام پر پروگرام کا آغاز کیا جائے گا۔ فواد چودھری نے انڈین پریمیئر لیگ کی نشریات دکھانے پر پابندی کے فیصلے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ سیاسی معاملات کی وجہ سے سپورٹس کو متاثر نہیں ہونا چاہئے‘ لیکن بھارت کی جانب سے ایسا رویہ رکھا گیا۔ بھارتی ٹیم نے حد ہی کر دی اور فوجی کیپ پہن کر میچ کھیلا۔ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کیا بھارت کے اس رویئے کا پوری دنیا میں مذاق اڑایا گیا۔ وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہورہی ہے۔ زیادہ مشکل وقت نہیں۔ انشاء اللہ بہتر وقت آنے والا ہے۔ یقینی بنائیں گے کہ رمضان المبارک میں کم سے کم لوڈشیڈنگ ہو۔ شماریات ڈویژن کو منصوبہ بندی ڈویژن کے ماتحت کیا جائے گا۔ سوئی سدرن اور ناردرن کیلئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے تقرری منظوری بھی دی گئی۔ دریں اثنا وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ کابینہ اجلاس میں کون آئے گا اور کون نہیں یہ فیصلہ کرنا بطور وزیراعظم ان کی صوابدید ہے۔ وزیراعظم نے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان تنازعہ سے متعلق کابینہ ارکان کو بیان بازی سے بھی روک دیا۔ کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا پارٹی کے اندرونی اختلافات کا اظہار میڈیا پر کرنا نامناسب ہے۔ عمران خان نے کہا انہوں نے جہانگیر ترین سے بطور ایکسپرٹ بریفنگ لی۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سینئر رہنما ہیں۔ دونوں کی رائے اہم ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پارٹی ملکی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد کا مظاہرہ کرے۔ فواد چودھری نے کہا کہ کابینہ کے فیصلوں پر 90 روز میں عملدرآمد ہوتا ہے البتہ 18 فیصلوں پر 90 روز میں عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ وزیراعظم نے سماجی تحفظ برائے انسداد غربت سے متعلق ڈویژن قائم کرنے کی منظوری دی۔ یہ ڈویژن قائم کر دیا گیا ہے۔ اعجاز شاہ نے بطور وفاقی وزیر پارلیمانی امور حلف اٹھا لیا ہے۔ ارشد ملک کو پی آئی اے کا سی ای او تعینات کیا ہے۔ حسن عرفان کو آئی پی او بورڈ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ حسن عرفان کا اپنا کاروبار ہے‘ اس لئے مفادات کا ٹکراؤ تھا۔ کاروبار شروع کرنے والوں کیلئے قرضہ سکیم بھی متعارف کرا رہے ہیں۔ او جی ڈی سی ایل کے نئے بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سوئی ناردرن کے نئے چیئرمین سید دلاور عباس ہوں گے۔ شمس الدین شیخ پی ایم ڈی سی کے نئے چیئرمین ہوں گے۔ سوئی سدرن کانیا بورڈ قائم کیا ہے۔ اس کی چیئرمین شمشاد اختر ہوں گی۔ فاٹا کو 57.3 ارسا کا بجٹ ٹرانسفر کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ اکنامک کو آرڈی نیشن کمیٹی کے فیصلوں کی منظوری دی گئی ہے۔ نیشنل انڈسٹریل کی ٹیم کا تقرر کیا گیا ہے۔ گندم‘ کپاس اور چاول سے متعلق پالیسی بنانے کا کہا گیا ہے۔ طویل عرصے بعد اس بار گنے کے کاشتکاروں کو مکمل معاوضہ ملا ہے۔ دس لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ گندم کی نئی فصل آ رہی ہے جو سٹاک میں موجود ہے اسے بھی نکالنا ہے۔ بنکنگ کورٹ لاہور‘ فیصل آباد کے جج مقرر کئے گئے ہیں۔ معیشت میں یقینی طور پر اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ فوجی عدالتوںکے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کریں گے۔ اپوزیشن نہیں چاہے گی تو فوجی عدالتیں نہیں بنیں گی۔ جہانگیر ترین اور شاہ محمود کے معاملے پر وزیراعظم نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اندر کی باتیں باہر نہیں جانی چاہئیں۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے وزراء کو بیان بازی سے روک دیا ہے۔ اعتزاز احسن بھی تو پیپلز پارٹی میں رہ کر اپنی جماعت پر تنقید کر رہے ہیں۔ مراد علی شاہ سے پوچھیں گے 40 ہزار کروڑ روپے کہاں گئے ہیں۔ مراد علی شاہ اینڈ کمپنی نے جس طرح ان پیسوں کا استعمال کیا ہے اس پر سوال بنتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں بعض چیزوں کا فرق نہیں پڑتا۔ کچھ چیزوں پر بحث ہونی چاہئے۔ مجموعی طور پر 18 ویں ترمیم ملک کے مفاد میں ہے۔ فواد چودھری نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں اپنی اپنی آراء ہوتی ہیں، اس میں بھی ہیں، حتمی فیصلہ عمران خان کا ہوگا۔ اپنی رائے دینے میں کوئی مسئلہ نہیں، مودی کو چاہئے کہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی بھارتی عوام کے سامنے رکھیں۔ وزیراعظم اپوزیشن لیڈر شہبازشریف سے ملنا نہیں چاہتے وہ کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں شہباز شریف کو وزیراعظم سے ملاقات سے زیادہ ایک فیملی میٹنگ کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمشن ارکان کی تقرری پر اتفاق نہ ہوا تو معاملہ کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا۔ کہاں لکھا ہے کہ ممبران کی تقرری پر مشاورت کیلئے شہباز شریف کی شکل دیکھنا ضروری ہے۔ سندھ کا مسئلہ یہ ہے کہ پیسہ جاتا کہاں ہے۔ سندھ حکومت سے سوال کرنا ہمارا حق ہے۔ پیپلز پارٹی کے چپڑاسی بھی ارب پتی بن چکے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو پیسے گئے یہ اچھی چیز ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ہائر ایجوکیشن کمشن تعلیم اور صحت پر بات کرنی چاہئے۔ ہم نے ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا اور بھارت دنیا میں اکیلا ہوا ہے۔ ہم بھی سیاسی جماعت ہیں۔ لیکن پارٹی امور کا فیصلہ صرف عمران خان کے پاس ہے۔ غربت مٹائو پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر شاہینہ نشتر ہوں گی۔ عمران خان نے جس دن حلف اٹھایا اس روز 15 دن کے ریزرو تھے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کابینہ کے اب تک 33 اجلاس ہو چکے ہیں جس میں 607 فیصلے کئے گئے جن میں سے 375 فیصلوں پر مکمل عملدرآمد ہو چکا ہے۔ 57.3 ارب روپے کا بجٹ فاٹا کو منتقل کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ کابینہ اجلاس میں 19 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔
اسلام آباد (محمد نواز رضا) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے وزیراعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے تنازعہ ہونے والی بیان بازی پر سخت ’’ناپسندیدگی‘‘ کا اظہار کیا ہے اور وفاقی کابینہ ارکان کو اس ایشو پر مزید بات کرنے سے روک دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت کے باوجود پارٹی میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین گروپ ایک دوسرے کے خلاف سرگرم ہیں دونوں گروپوں کے درمیان پائی جانے والی ’’سرد جنگ‘‘ ختم نہیں ہوئی منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان ہونے والی بیان بازی کا معاملہ اٹھایا گیا ووفاقی کابینہ کے بیشتر ارکان نے شاہ محمو قریشی کی طرف سے بیان بازی پر دبی زبان میں تنقید کی اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں پارٹی کے اندر کی بات باہر نہیں کرنی چاہے اس سے پارٹی کے بارے میں تاثر خراب ہو تا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنا وزن جہانگیر ترین کے پلڑے میں ڈال دیا اور کہا کہ انہوں نے خود زراعت پالیسی پر جہانگیر ترین کو اسائنمنٹ دی تھی، جہانگیر ترین پارٹی کے ایک قابل احترام رہنما ہیں۔ لہذا ہم سب کو ان کی عزت و توقیر کا خیال رکھنا چاہیے حکومت عدالتی فیصلوں کا احترام کرتی ہے تاہم جہانگیر ترین سے بطور ایکسپرٹ بریفنگ لی۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اجلاس میں کون آئے گا اور کون نہیں، یہ فیصلہ کرنا بطور وزیراعظم میری صوابدید ہے۔ لہذا اس بارے میں کوئی اعتراض نہ کرے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سینیئر رہنما ہیں اور دونوں کی رائے اہم سمجھی جاتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فوادچوہدری نے اس بات کی تصدیق کی جہانگیر ترین اور شاہ محمودقریشی کے معاملے پر وزیراعظم نے ناپسندیدگی کا اظہار کیاہے، وزیراعظم نے کہاہے کہ پارٹی کے اندرونی معاملات باہر ڈسکس نہیں ہونی چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ پارٹی میں ہر کوئی اپنی رائے دے سکتا ہے لیکن حتمی فیصلے کرنے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے ہم بھی سیاسی جماعت ہیں لیکن پارٹی امور کا فیصلہ صرف عمران خان کے پاس ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی دونوں ہی پارٹی کے لیے محترم ہیں، اپنی اپنی رائے دینے میں کوئی حرج نہیں، جب کہ اعترازاحسن بھی پیپلزپارٹی میں رہ کر پیپلزپارٹی پر تنقید کررہے ہوتے ہیں۔