محدث اعظم حضرت مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد
صاحبزادہ قاضی محمد فیض رسول رضوی
محدث اعظم پاکستا ن مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد ایسے عہدآفرین بزرگ اور عالم تھے۔ کہ علم ان پر نازاں تھا۔ وہ ایسے مدرس تھے کہ فن تدریس کو ان پر فخر تھا۔ وہ فنِ خطابت کے بادشاہ اور نکتہ آفرین محقق تھے۔ وہ حلقہ یاراں میں تو برگِ گل سے زیادہ نرم لیکن جب عقائد حقہ کا معاملہ ہوتا تو وہ تیغ براں کی مانند تھے۔ ان کا خلوص ان کے چہرے سے ظاہر اور عشق رسول کی لطافتیں ان کے بشرہ سے واضح تھیں۔ ان کی زبان سے قال اللہ و قال الرسولؐ کا مقدس نغمہ جاری رہتا ۔حضرت محدث اعظم مولانا محمد سردار احمد قدس سرہ 1904ء میں پیر کے روز گورداسپور تحصیل بٹالہ قصبہ دیال گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی چوہدری میراں بخش تھا۔ جو اپنے علاقے کے ممتاز زمیندار اور خدا ترس بزرگ تھے۔ابتدائی تعلیم آبائی گائوں سے حاصل کرنے کے بعد دیال سنگھ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے کہ حضرت حجتہ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت حزب الاحناف کے سالانہ جلسہ میں ہو گئی ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ بریلی شریف جانے کی درخواست کی۔ حضرت حجتہ الاسلام رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی نظر و لائت سے مستقبل میں ہونے والے محدثِ اعظم کو پہچان لیا اور اپنے ہمراہ بریلی شریف لے گئے۔جامعہ رضویہ مظہر اسلام بی بی جی مسجد بریلی میں آپ نے ابتدائی کتب مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ سے پڑھیں۔ منیتہ المصلی اور قدوری تک کتابیں حضرت حجتہ الاسلام نے خود پڑھائیں۔ پھر آپ جامعہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں حضرت صدر الشریعتہ مولانا مفتی محمد امجد علی (مصنف بہارِ شریعت) کی خدمت میں حاضر ہوئے جہاں آپ کی قسمت کا ستارہ چمکا تو بقول مفتی اعظم ہند پھر تو بحر العلوم کے پاس گئے اور خود بھی بحر العلوم ہو گئے۔ آٹھ سال بعد آپ اجمیر شریف سے بریلی شریف واپس تشریف لائے۔ یہاں آپ جامعہ منظر الاسلام میں پانچ سال تک علوم و فنون کے موتی لٹاتے رہے اور پھر گیارہ سال تک جامعہ رضویہ مظہر اسلام بی بی جی بریلی شریف میں شیخ الحدیث کے منصب پر معمور ہوئے ۔ اور تا قیام پاکستان وہیں رہے۔ اسی دوران آپ نے 1946ء کے مشہور آل انڈیا سنی کانفرنس کے اجلاس منعقدہ بنارس میں شرکت فرما کر مطالبہ پاکستان کی حمایت کا اعلان فرمایا۔تقسیم برصغیر کے فوراً بعد آپ لاہور تشریف لائے چند روز بعد آپ شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی کے پاس وزیر آباد چلے آئے ۔ بعد میں ساروکی تشریف لے گئے وہیں آپ نے نماز جمعہ پڑھانا شروع کر دیا۔ ساروکی کے قیام کے دوران پاکستان کے اکابر علماء اور مشائخ عظام نے اپنے ہاں سلسلہ تدریس جاری کرنے کی درخواست کی۔ لیکن فیصل آباد کی قسمت جاگی اور مفتی اعظم ہند کے ایماء پر یہ سعادت فیصل آباد کے حصہ میں آئی۔ اس وقت فیصل آباد کی جو مذہبی حالت تھی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو اس وقت فیصل آباد میں موجود تھے۔ فیصل آباد میں ذکر مصطفیٰ ؐ پر قدغن تھی فضائیں ستر برس سے نعرہ رسالت کو ترس رہی تھیں۔ ان حالات میں کسی عالم حق کا آ کر تبلیغ دین کرنا گویا جان جوکھوں میں ڈالنا تھا۔ آپ نے جیسے ہی فیصل آباد کی فضائوں میں شمع حق روشن کی ۔ تشدد و تعصب کی تندوتیز آندھیاں اٹھنے لگیں۔ ان پر قاتلانہ حملے بھی کئے گئے مگر پائے ثبات میں لغزش نہ آ سکی۔حضرت محدث اعظم نے میونسپل کمیٹی کی اجازت سے 12ربیع الاول 1369ھ کو مرکزی سنی رضوی جامع مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جو آج کل اہلسنت کا ایک عظیم مرکز ہے اور ساتھ ہی آپ نے مرکزی دارالعلوم جامعہ رضویہ مظہر الاسلام کا سنگ بنیاد رکھا۔
مسلسل درس و تدریس اور کام نے آپ کی صحت پر بہت زیادہ اثر کیا۔ جب علالت نے طول پکڑا تو آپ بغرض علاج کراچی تشریف لے گئے اور پھر 30رجب المرجب 1328ھ کو شب ایک بج کر چالیس منٹ پر ساحل بحر عرب کراچی میں یہ آفتاب علم و عمل غروب ہو گیا۔ ـانا للہ و انا الیہ راجعون۔ اسی مناسبت سے آپ کا سالانہ عرس مبارک 30-29رجب المرجب بمطابق 7-6اپریل 2019ء کو فیصل آباد جھنگ بازار میں منعقد ہو رہا ہے۔