پاکستان سمیت 122 ممالک انتہائی مقروض، صورتحال بہتر ہوتی نظر نہیں آرہی: جرمن ادارہ
برلن(این این آئی)دنیا بھر میں اس وقت اتنے زیادہ ممالک انتہائی مقروض ہیں، جتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ یہ صورت حال جلد بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس وقت ایک سو بائیس ریاستیں قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہیں۔ افریقی ممالک کی حالت تو انتہائی بری ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق عالمی سطح پر مختلف ممالک کو درپیش قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال سے متعلق یہ تفصیلات قرض رپورٹ 2019 میں بتائی گئی ہیں، جو جوبلی جرمنی نامی ادارے نے جرمن دارالحکومت برلن میںپیش کی۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں ماہرین کی طرف سے دنیا کے 154 ممالک کو درپیش مالیاتی مسائل کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے 122 ریاستیں خطرناک حد تک مقروض پائی گئیں۔مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ 2017 میں خطرناک حد تک مقروض ممالک کی تعداد 119 تھی، جو آج 2019 میں مزید تین ریاستوں کے اضافے کے ساتھ 122 ہو چکی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق دنیا کا سب سے پسماندہ اور کم ترقی یافتہ براعظم سمجھے جانے والے افریقہ میں تو بہت سے ممالک کو درپیش قرضوں کی بحرانی صورت حال اتنی شدید ہو چکی ہے کہ اب ان ممالک نے اپنے ذمے قرضوں کی واپسی کے لیے پریشان ہونا اور کوئی کوششیں کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔جوبلی جرمنی کے ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر قرضوں کی یہ صورت حال اتنی ناامید کر دینے والی ہے کہ اس کی وجہ سے ہر جگہ اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بہتر ہوتی نظر نہیں آتی اور یہ رجحان بظاہر جاری رہے گا۔جوبلی جرمنی کی اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق قرضوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اس پریشان کن صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ضرورت مند اور غریب ممالک کو مختلف عالمی تنظیموں اور امیر ریاستوں کی طرف سے جو رقوم قرض کے طور پر فراہم کی جاتی ہیں، ان کے لیے شرح سود اتنی کم رکھی جاتی ہے کہ ان قرضوں کو سستے قرضوں کے طور پر بیچا جاتا ہے۔لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ ایسے سستے قرضے لینے والے بہت سے ممالک ایسا کرتے ہوئے اپنے ممکنہ وسائل سے بھی زیادہ بڑی چھلانگ لگا لیتے ہیں اور یوں ایک ایسے جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، جس سے نکلنا ان کے لیے کبھی ممکن ہی نہیں ہوتا۔برلن میں جوبلی جرمنی کے ایک مرکزی عہدیدار کلاس شِلڈر نے صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت عالمی سطح پر مختلف ممالک کی مدد کے لیے نہ صرف دیوالیہ پن کے خلاف ایک مؤثر نظام کی ضرورت ہے بلکہ قرض دہندہ اداروں اور امیر ریاستوں کو انتہائی مقروض ممالک کو نئے قرضے دینے پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے ذمے زیادہ تر قرضے معاف بھی کر دینا چاہییں۔افریقہ کے علاوہ ایشیا میں منگولیا، بحرین اور لبنان اور جنوبی ایشیا میں بھوٹان اور پاکستان جیسے ممالک کو بھی اس وقت ریاستی قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال کا سامنا ہے، جو ان ممالک کی معیشتوں کے لیے بہت صبر آزما ثابت ہو رہی ہے۔